کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 126
"وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ" "اور برتنے کی چیز روکتے ہیں۔"[1] اس آیت میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو دوسروں کو عام استعمال کی اشیاء عاریتاً نہیں دیتے۔علاوہ ازیں علماء نے اس آیت سے عاریتاً چیز دینے کا"وجوب" ثابت کیا ہے بشرطیکہ مالک مالدار اور مستغنی ہو۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے گھوڑا عاریتاً لیا تھا۔[2]اسی طرح صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے زرہیں عاریتاً لی تھیں۔[3] الف۔ کسی ضرورت مند کو اس کی ضرورت کی اشیاء عارتیاً دینا بہت بڑے اجرثواب کا باعث ہے کیونکہ نیکی اور تقوے میں تعاون کے عموم میں یہ کام بھی شامل ہے۔ ب۔ کسی چیز کا عاریتاً دینا تب جائزہے جب درج ذیل شرائط کا لحاظ ہو: 1۔ عاریتاً شے دینے والا رضا ورغبت سے شے دینے کی اہلیت رکھتا ہو اور بااختیار ہو،لہذا بچہ،مجنون اورکم عقل کسی چیز کو عاریتاً دینے کے اہل نہیں ہیں۔ 2۔ مستعیر (عاریتاً حاصل کرنے والا) بااختیار ہو کہ اس کا قبول کرنا درست ہو،یعنی اس میں بھی درج بالا اوصاف موجود ہوں۔ 3۔ عاریتاً دی گئی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہو،لہذا مسلمان غلام کسی کافر شخص کو عاریتاً دینا جائز نہیں یا کسی کو ایسا ہتھیار دینا جس سے وہ کسی کو قتل کرسکے جائز نہیں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: "وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ" "گناہ اور ظلم وزیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔"[4] 4۔ جو چیز عاریتاً دی جائے اس سے فائدہ لینا ممکن ہو،نیز وہ اپنی حالت پر قائم بھی رہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ ج۔ جس شخص نے کوئی شے عاریتاً دی ہے وہ جب چاہے اسے واپس لے سکتا ہے الا یہ کہ جب مستعیر کا نقصان ہو رہاہو تو درست نہیں،مثلاً: کسی کو کشتی عاریتاً دی گئی تاکہ اس سے باربرداری کاکام لیا جائے تو جب تک کشتی سمندر میں ہے تب تک معیر"عاریتاً دینے والا" واپس نہیں لے سکتا۔اسی طرح اگر ایک انسان نے شہتیر رکھنے کے لیے عاریتاً دیوار دے دی تو جب تک لکڑی دیوار پر رہے،مُعیر رجوع نہیں کرسکتا کیونکہ اس میں مستعیر کا نقصان ہے۔
[1] ۔الماعون107/7۔ [2] ۔صحیح البخاری الھبۃ وفضلھا، باب من استعار من الناس الفرس،حدیث 2627۔ [3] ۔سنن ابی داود، البیوع ،باب فی تضمین العاریۃ ،حدیث 3562۔ومسند احمد 3/401،6/465۔ [4] ۔المآئدۃ 5/2۔