کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 123
جہادی قوت کی استعداد حاصل کرنا ہے۔" نیز فرمایا:" دوڑ اور کشتی کے مقابلے وغیرہ بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے بشرطیکہ ان کا مقصد دین اسلام کی مدد و نصرت ہو۔ اس طرح ان میں انعامات دینا یا وصول کرنا جائز ہے۔ مزید برآں ایسا کھیل اور شغل جس میں نقصان کی بجائے فائدہ ہو، جائز ہے، البتہ ار جوحہ کے ذریعے کھیلنا مکروہ ہے۔" آگے چل کر شیخ موصوف فرماتے ہیں:" جو کھیل یا کام اللہ تعالیٰ کے اوامر سے روکنے اور مشغول رکھنے کا باعث ہو، ممنوع ہے اگرچہ وہ بذت خود حرام نہ بھی ہو، مثلاً: بیع ،تجارت وغیرہ ۔اسی طرح ایسے کھیل اور مقابلے اور ان کے آلات جن سے دین اسلام کو یا انسانی وجود کوکوئی فائدہ نہ ہو بلکہ احکام الٰہی کی پیروی سے غافل کریں بالا تفاق حرام ہیں۔" علمائے کرام نے اس باب کے مسائل کو "فروسية"کا عنوان دیا ہے اور اس کے احکام بیان کرنے میں دلچسپی لی ہے بلکہ اس موضوع پر ان کی مشہور تصانیف بھی ہیں۔ "فروسية" کی چار اقسام ہیں: 1۔ گھوڑے کی سواری کرنا، اسے دوڑانا اور حملہ کرنے کی ٹریننگ دینا وغیرہ ۔ 2۔ تیر اندازی کرنا اور وقت کے جدید اسلحہ سے آگہی حاصل کرنا۔ 3۔ نیزہ زنی میں مہارت حاصل کرنا۔ 4۔ تلوار کے استعمال میں تربیت لینا ۔ جس شخص نے یہ چار مراحل طے کر لیے اس نے "فروسیہ" میں کمال حاصل کر لیا۔"[1] انسانوں ،جانوروں اور گاڑیوں وغیرہ میں دوڑ کا مقابلہ کرانا(اور انھیں انعام دینا) جائز ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:"گھوڑوں وغیرہ میں دوڑلگانا یا لوگوں کے درمیان دوڑ میں مقابلہ کرانا جائز ہے۔ اسی طرح تیر اندازی یا دیگر اسلحہ میں مقابلہ بازی درست ہے کیونکہ اس میں جنگ و جہاد کی تربیت حاصل ہوتی ہے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوڑ لگائی تھی۔"[2] اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ سے کشتی لڑی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بچھاڑکر جیت لی۔[3]
[1] ۔جدید دور کے اعتبار سے جنگی طیاروں ،ٹینکوں توپوں اور میزائلوں کی تربیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ [2] ۔سنن ابن ماجہ، النکاح ،باب حسن معاشرۃالنساء ،حدیث 1979۔ [3] ۔(ضعیف) سنن ابی داؤد،اللباس ،باب فی العمائم، حدیث:4078۔