کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 122
کام "اجیر " کے ذمے امانت ہے، لہٰذا اس کا خیال رکھنا ،اسے مکمل کرنا اور خیر خواہی کرنا اجیر پر لازم ہے۔ اسی طرح اجیر کی اجرت آجر (مالک) کے ذمے قرض ہے اور حق ہے جسے کسی ٹال مٹول اور کمی کے بغیر ادا کر دینا واجب ہے۔ مقابلہ بازی کے احکام مقابلہ بازی سے مراد جانوروں کی دوڑ لگانا یا تیر اندازی جیسے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔ مقابلہ بازی کا جواز کتاب اللہ ، سنت رسول اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ" "اور تم ان کے مقابلے کے لیے اپنی مقدور بھر قوت تیار رکھو۔"[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "أَلا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ" "خبر دار! قوت تیر اندازی سے ہے۔[2] اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ " "ہم تو آپس میں دوڑ کا مقابلہ کرنے لگے تھے۔"[3] سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " لَا سَبْقَ إِلَّا فِي خُفٍّ، أَوْ حَافِرٍ، أَوْ نَصْلٍ " "صرف اونٹ ،گھوڑے اور تیر میں مقابلہ بازی (اور انعام ) جائز ہے۔"[4] علماء نے بالاتفاق اس کے فی الجملۃ جواز کا فتوی صادر کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" گھوڑوں کی دوڑیا تیر اندازی اور جنگی آلات کے ذریعے سے وہ مقابلے جن کے جواز کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم صادر فرمایا ہے۔ ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی راہ میں
[1] ۔الانفال:8/60۔ [2] ۔صحیح مسلم الامارۃ باب فضل الرمی والحث علیہ ،حدیث1917۔ [3] ۔یوسف 12/17۔ [4] ۔سنن ابی داؤد الجہاد باب فی السبق حدیث :2574۔