کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 121
لینے کا مستحق ہوگا۔اس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہوگا۔ اگر اس سے کوئی کام غلطی سے بگڑ گیا یا کوئی نقصان ہو گیا تو یہ ضامن نہ ہوگا ،مثلاً: جس آلے سے کام کر رہا تھا وہ ٹوٹ گیا۔ عدم ضمان کی وجہ یہ ہے کہ وہ وکیل کی طرح مالک کا نائب ہے ،ہاں !اگر اس نے خود تعدی و زیادتی کی تو نقصان کا ضامن ہو گا۔ مشترک مزدور وہ ہے جس کے لیے کام کی اجرت طے ہوئی تھی لیکن وہ صرف اسی کاکام نہیں کرتا بلکہ اس نے بیک وقت متعدد افراد کے کام کی ذمے داری قبول کی ہوئی ہے۔ اجیر مشترک نقصان کا ضامن ہوگا کیونکہ وہ کام کیے بغیر اجرت کا مستحق نہیں ہوتا۔ لہذا اس کے کام کی ذمے داری اسی پر ہے۔ "اجرت "عقد" کے ساتھ ہی لازم ہو جاتی ہے، البتہ ادائیگی اس وقت لازم ہو گی جب وہ اپنا کام مکمل کرے گا یا آجر منفعت حاصل کرے گا یا کرائے پر دی ہوئی شے واپس کرے گا۔ نیز مدت معاہدہ گزر جائے اور مانع بھی کوئی نہ ہو کیونکہ اجیر اجرت تب لے گا جب وہ اپنا کام مکمل کر لے گا۔ واضح رہے اجرت ایک معاوضہ ہے اور معاوضہ تبھی ملتا ہے جب کام مکمل ہو۔ اجیر (مزدور) پر لازم ہے کہ وہ کام کو اچھی طرح مکمل کرے ۔ اس پر حرام ہے کہ کام میں دھوکہ دے یا خیانت کرے جیسا کہ اس پر واجب ہے کہ طے شدہ مدت کے اندر اندر تسلسل سے کام کرے اور وقت ضائع نہ کرے۔ اپنے کام کی ادائیگی میں خوف خدا رکھے۔ مستاجر (مالک) پر لازم ہے کہ وہ کام مکمل ہونے پر مکمل اجرت ادا کردے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: " أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ " "مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔"[1] سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " قَالَ اللّٰهُ تَعَالَى: ثَلاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتأَجَرَ أَجِيرًا، فَاسْتَوْفى مِنْهُ، وَلَمْ يُعْطِهِ أَجْرَهُ " "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تین آدمی ایسے ہوں گے کہ میں روز قیامت ان سے جھگڑوں گا(اور جس کے ساتھ میں قیامت کے دن جھگڑا کروں گا تو غالب آ جاؤں گا): (1)وہ شخص جس نے مجھ سے عہد و پیمان کیا، پھر دھوکا دے دیا۔2۔وہ آدمی جس نے آزاد آدمی کو (غلام قرار دے کر ) بیچ دیا اور اس کی قیمت کھا گیا۔ (3)وہ آدمی جس نے کسی کو مزدور رکھا اس سے کام پورا لیا لیکن اس کی مزدوری نہ دی۔"[2]
[1] ۔(ضعیف) سنن ابن ماجہ الرھون باب اجر الاجر اء ،حدیث 4324۔ [2] ۔صحیح البخاری البیوع باب اثم من باع حرا، حدیث 2227۔ البتہ قوسین والے الفاظ سنن ابن ماجہ الرھون باب الاجراء حدیث 2442۔کے ہیں۔