کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 118
1۔ "فائدہ حاصل کرنے کا معاہدہ "ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کی ذات کے بارے میں معاہدہ اجارہ نہیں بلکہ بیع ہے۔ 2۔ "منفعت کا مباح ہونا (ضروری ہے)" لہٰذا حرام منفعت پر عقد اجارہ ناجائز ہے بلکہ ایسا معاہدہ اجارہ نہیں کہلاتا ،مثلاً: زنا وغیرہ۔ 3۔ "منفعت کا متعین ہونا ضروری ہے۔" لہٰذا مجہول منفعت پر عقد ناجائز ہو گا۔ 4۔ "کام کی مدت متعین ہو" مثلاً: ایک دن ایک مہینہ۔ 5۔ اجرت متعین ہو۔ معین ذات یا موصوف فی الذمہ یا معلوم عمل جیسے الفاظ سے اجارے کی دو قسمیں سامنے آتی ہیں: 1۔ کسی معین چیز سے نفع حاصل کرنے کا معاہدہ ہو، مثلاً :"میں نے تجھے یہ گھر اجرت (کرایہ) پر دیا۔"یا کسی ایسی شے کا معاہدہ ہو جس کے اوصاف کا تذکرہ ہو ، مثلاً:"میں نے تجھے بار برداری کے لیے ایک ایسا اونٹ دیا جس میں فلاں فلاں وصف ہیں۔" 2۔ اجارہ کسی متعین عمل پر ہو،مثلاً :وہ اسے فلاں جگہ تک سوار کر کے لے جائے گا یا اس کی یہ دیوار بنائے گا۔ اجارہ قرآن مجید، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآَتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ " " پھر اگر وہی (مائیں بچے کو) دودھ پلائیں تو تم انھیں ان کی اجرت دے دو۔"[1] نیز فرمایا: "قَالَ لَوْ شِئْتَ لاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا" "موسیٰ کہنے لگے: اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے۔"[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر ہجرت میں راستے کی راہنمائی کے لیے ایک آدمی کو اجرت پر ساتھ لیا تھا۔ ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے اجارے کے جواز پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے علاوہ ازیں لوگوں کی حاجت و ضرورت اس کے جواز کی متقاضی ہے یعنی جس طرح انھیں اشیاء کی ضرورت ہے اسی طرح منافع کی حاجت و ضرورت بھی ہے۔ کسی آدمی کو اجرت دے کر اس سے کوئی متعین کام لینا جائز ہے، مثلاً: کسی سے کپڑا سلوانا ،دیوار بنوانا ، یا کسی سے
[1] ۔الطلاق65۔6 [2] ۔الکھف:18۔77۔