کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 117
یہ روایت مزارعت کی ایسی صورت کو حرام قرار دیتی ہے جس میں نقصان اور جہالت ہو اور لوگوں کے درمیان نزاع و اختلاف پیدا کرے۔ ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے متعدد روایات مروی ہیں اور ان میں وہ علل موجود ہیں جو اس وقت موجود تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علل کی بنیادپر زمین کو کرائے پر دینے سے منع کر دیا تھا۔ چنانچہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:"ہم زمین کو کرائے پر دیتے تھے اس شرط پر کہ زمین فلاں حصے کی پیداوار ہمارے لیے اور فلاں حصے کی پیداوار تمہارے لیے ہوگی، چنانچہ کبھی اس ایک حصے میں پیداوار ہوتی اور اس دوسرے حصے میں پیداوار نہ ہوتی۔"[1] اجارہ کے احکام اجارہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس کی ضرورت تقریباً ہر انسان کو مختلف مصلحتوں اور فوائد کے حصول کے لیے باربارپیش آتی ہے جس میں ایک انسان دوسرے کے ساتھ روزانہ، ماہانہ یا سالانہ اجرت کا معاملہ طے کرتا ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کے بارے میں اسلامی احکام کی معرفت انتہائی ضروری ہے کیونکہ مختلف مقامات اور اوقات میں جو معاملہ بھی لوگوں کے درمیان اسلامی اصولوں کے مطابق طے ہو گا۔ اس میں فوائد کا حصول زیادہ اور نقصانات کا اندیشہ نہایت کم ہو گا۔ لغوی تعریف لغوی اعتبار سے اجارہ"اجر"سے مشتق ہے جس کے معنی "معاوضہ"کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "قَالَ لَوْ شِئْتَ لاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا" "موسیٰ کہنے لگے: اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے۔"[2] شریعت اسلامی میں "معلوم مدت یا عمل کے لیے کسی متعین یا واجب الادایسی چیز سے جس کی ذات یا صفات معلوم ہوں۔ فائدہ حاصل کرنے اور نقد رقم کی صورت میں اس کی اجرت ادا کرنے کے معاہدے کا نام" اجارہ" ہے۔" درج بالا تعریف اجارے کی اہم شرائط اور اس کی انواع پر مشتمل ہے، یعنی درج بالا تعریف کی روشنی میں ثابت ہوا:
[1] ۔ صحیح مسلم البیوع باب کراء الارض بالذھب والورق حدیث :1547۔ [2] ۔الکھف:18۔77۔