کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 114
صحیح مسلم میں ہے: " أَنَّهُ دَفَعَ إِلَى يَهُودِ خَيْبَرَ نَخْلَ خَيْبَرَ وَأَرْضَهَا عَلَى أَنْ يَعْتَمِلُوهَا مِنْ أَمْوَالِهِمْ، وَ لِرَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَطْرَ ثَمَرَتِهَا " "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی کھجوروں کے درخت اور زمین یہودیوں کے حوالے کر کے نصف حصہ بٹائی پر معاملہ طے کرلیا۔"[1] اس مضمون کی ایک روایت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی مسند میں بیان کی ہے۔[2] امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:"خیبر کا قصہ مساقات اور مزارعت کے جواز پر دلیل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک یہ معاہدہ قائم رہا، منسوخ نہیں ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا اس پر تعامل رہا۔ اس معاہدے کی بنیاد اجرت پر نہ تھی بلکہ اس کا تعلق مشارکت سے تھا اور مضاربت کے مثل معاملہ تھا۔[3] ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اسی پر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے اپنی اپنی خلافت میں عمل کیا اور کسی سے اس کا انکار بھی ثابت نہیں"[4]تو یہ اجماع ہے۔ نیز امام موصوف فرماتے ہیں:"جو بات حدیث اور اجماع کے مخالف ہو اس پر اعتماد نہیں ہو سکتا ۔ کھجور یا دیگر درختوں کے اکثر مالکان ان کو پانی دینے سے قاصر ہوتے ہیں اور نہ کسی کو اجرت پر رکھ سکتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ ان کے پاس درخت نہیں لیکن وہ پھل کے ضرورت مند ہوتے ہیں تو اس مزارعت کی مشروعت میں دونوں کی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں اور دونوں فریقوں کو فائدہ ہو جاتا ہے۔"[5] فقہائے کرام نے مساقات کی درستی کے لیے لازم قراردیا ہے کہ وہ درخت پھل دار ہوں ،نیز ان کا پھل کھانے کے قابل ہو، لہٰذا جو درخت پھلدار نہ ہو یا اس کا پھل کھایا نہ جاتا ہو۔ اس میں عقد مساقات درست نہیں کیونکہ اس پر کوئی شرعی نص نہیں۔ مالک یا عامل کو پھل کا جو حصہ دیا جائے وہ طے شدہ اور معلوم ہو اگرچہ وہ کم ہو یا زیادہ ،مثلاً :تہائی یا چوتھائی وغیرہ اگر دونوں نے یہ شرط عائد کی کہ سارا پھل صرف ایک فریق کو ملے گا دوسرے کو نہیں تو یہ معاہدہ ناجائز ہےکیونکہ اس میں ایک فریق کو غلہ کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے ۔اگر عامل یا مالک کو مخصوص صاع (مثلاً: دس یا بیس صاع) دینے کا معاہدہ ہو تو بھی جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ سارا پھل اتنی ہی مقدار میں ہو۔اسی طرح اگر مساقات میں عامل کے لیے متعین دراہم مقرر کیے گئے تو یہ بھی جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے غلےکی مقدار مقررہ دراہم
[1] ۔صحیح مسلم المساقاۃ، باب المساقاۃ والمعاملۃ حدیث 1551۔ [2] ۔مسند احمد:1/250۔ [3] ۔زاد المعاد :3/345۔ [4] ۔۔المغنی والشرح الکبیر :5/555۔ [5] ۔المغنی والشرح الکبیر: 5/555۔