کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 113
مزارعت اور مساقات کے احکام مساقات اور مزارعت ان کاموں میں سے ہے جو لوگوں میں زمانہ قدیم سے جاری و ساری ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کچھ درختوں کا مالک ہوتا ہے لیکن ان کا پھل لینے کے لیے ان کی مناسب دیکھ بھال اور محنت نہیں کر سکتا یا کسی کے پاس زرعی زمین ہوتی ہے لیکن اس سے پیداوار حاصل کرنے کے لیے کماحقہ محنت اور رکھوالی نہیں کر سکتا جبکہ کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں نہ درخت ہوتے ہیں اور نہ زمین کا کوئی ٹکڑا ، البتہ اگر اسے درخت یا زمین مہیا ہو جائے تو اس پرمحنت کر کے ان کا پھل یا زمین سے پیداوار حاصل کر سکتا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر شریعت نے فریقین کو مزارعت اور مساقات کی اجازت دے دی کیونکہ اس میں دونوں کی مصلحت اور فائدہ ہے، نیز نقصان سے بچاؤ ہے۔ درحقیقت شریعت کے ہر حکم کی بنیاد عدل و انصاف اور مصلحت کے حصول اور نقصان سے بچاؤ پر ہے۔ فقہاء نے مساقات کی یوں تعریف کی ہے:"کسی کام کرنے والے کو پھلدار درختوں کا قبضہ دینا اور اسے کہنا کہ ان کی دیکھ بھال کر پانی لگا حتی کہ یہ پھل دینے لگیں تو اس کی آمدنی میں سے اتنا حصہ تیرا اور باقی مالک کا ہوگا۔" ایک شخص اپنی زمین دوسرے کو دیتا ہے کہ وہ اس میں کاشت کرے یا زمین اور بیج دونوں کاشت کرنے والے کو دے تاکہ وہ اس زمین میں بیج ڈالے اور اس کی نگرانی کرے تو آمدن میں سے ایک (غیر مخصوص ) حصے کا وہ مستحق ہو گا باقی آمدن مالک کی ہوگی۔یہ "مزارعت" کے نام سے معروف ہے۔ مساقات و مزارعت میں یہ بھی درست ہے کہ پیدا وار میں مالک کا حصہ مشروط کر لیا جائے،اس صورت میں باقی پیداوار عامل کو ملتی ہے۔ مساقات و مزارعت کے جواز کی دلیل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: "أَنّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَلَ أَهْلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا خَرَجَ مِنْهَا مِنْ ثمر او زَرْعٍ" "بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے طے کیا تھا کہ جو پھل اور غلہ ان کی زمینوں اور باغات سے حاصل ہوگا۔ نصف نصف تقسیم کیا جائے گا۔"[1]
[1] ۔صحیح البخاری الحرث والمزارعۃ باب المزارعۃ بالشطر ونحو ہ ،حدیث :2328۔وصحیح مسلم، المساقاۃ ،باب المساقاۃ والمعاملۃ ،حدیث 1551واللفظ لہ۔