کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 110
اگر شرکاء کے ہنر اور کام مختلف ہوں تو بھی شراکت ابدان جائز ہے، مثلاً:ایک کپڑے کی سلائی کرتا ہے اور دوسرا لوہے کاکام کرتا ہے، نیز آجر سے اپنے کام کی اجرت طلب کرنے اور لینے کا ہر ایک کو اختیار ہے۔ اسی طرح آجر کام کی اجرت کسی بھی ایک شخص کو دے سکتا ہے کیونکہ ہر ایک دوسرے کا وکیل ہے ، چنانچہ حاصل شدہ اجرت تمام شرکاء میں برابر برابر تقسیم ہوگی۔ مباح چیزوں میں شرکت ابدان (کئی آدمیوں کی شراکت ) درست ہے، مثلاً: لکڑیاں جمع کرنا، پہاڑوں سے پھل چننا، کان (معدن )سے کچھ نکالنا۔ اگر کوئی ایک شریک بیمار ہوگیا تو دوسرے کو جو محنت و مزدوری ملے گی وہ دونوں میں تقسیم ہو گی جیسا کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے دو قیدیوں میں اس کے دوسرے دو ساتھی حصے دار ہوئے تھے۔[1] اگر تندرست نے مریض (شریک) سے اپنا نائب مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تو اسے پورا کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں شراکت کے دائرہ میں کام کرنے کے معاہدے کے ساتھ داخل ہوئے تھے۔ اگر مریض وہ کام کرنے سے معذور ہوا ور اپنا نائب بھی مقرر نہیں کرتا تو اس کے دوسرےشریک کو معاہدہ فسخ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اگر دو یا زیادہ اشخاص (جن کے پاس اپناپنا جانور یا گاڑی ہے) معاہدہ کر لیں کہ ہم اپنے اپنے جانور یا گاڑی پر بوجھ کویا لوگوں کو کرایہ لے کے سوار کریں گے اور ہر ایک جو کچھ آمدن حاصل کرے گا وہ سب میں برابر تقسیم ہو گی تو یہ شراکت بھی درست ہے کیونکہ یہ بھی کمائی کی ایک نوعیت ہے۔ اس طرح کسی کو جانور یا گاڑی دینا تاکہ وہ اس سے کام لے کر مال کمائے، پھر وہ آمدن کو باہم تقسیم کر لیں تو جائز ہے۔ اگر تین افراد مل جاتے ہیں، ایک کا گھوڑا ہے، دوسرے کا تانگہ اور تیسرا کو چوان بن کر محنت کرتا ہے تو حاصل شدہ آمدن تینوں برابر تقسیم کر لیں تو درست اور جائز ہے۔ اگر دو یا زیادہ اشخاص دلالی میں شراکت کر لیں ،مثلاً: سامان بیچنے کے لیے دونوں آواز لگائیں یا گاہگ تلاش کریں تو بھی جائز ہے اور حاصل ہونے والا مال دونوں میں برابر برابر تقسیم ہو گا۔ شراکت مفاوضہ اس میں ہر حصے دار دوسرے کو مالی اور بدنی اشتراک کے جملہ اختیارات تفویض کرتا ہے۔ یہ شراکت عنان ،مضاربت ،وجوہ اور ابدان سب شراکتوں کو محیط ہے، یعنی سب شرکاء تمام حقوق اور فرائض میں برابر شریک ہوں گے۔
[1] ۔سنن ابی داود، البیوع، باب فی الشرکۃ علی غیر راس مال، حدیث: 3388۔