کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 101
" فَإذَا وَقَعَتِ الحُدُودُ وَصُرِّفَتْ الطُّرُقُ، فَلَا شُفْعَةَ " "جب حدود متعین ہوجائیں اور راستے الگ الگ ہوجائیں توشفعے کا حق باقی نہیں رہتا۔"[1] اس حديث سے واضح ہوتاہے کہ جب حدود واقع ہوجائیں لیکن راستے مختلف نہ ہوں توشفعہ کا حق باقی ہے۔امام احمد،ابن قیم اور تقی الدین رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے یہی رائے درست قراردی ہے۔[2] شیخ تقی الدین فرماتے ہیں:پڑوس کا شفعہ حقوق میں شراکت کی بنا پر ثابت ہوجاتا ہے،جیسے پانی یا راستہ وغیرہ ایک ہو۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بیان کیا ہے اور ابن عقیل اور ابومحمد نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔امام حارثی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مختلف احادیث جمع کرنے سے یہی خلاصہ نکلتا ہے،نیز صرف پڑوس کی وجہ سے شفعہ نہیں کیا جاسکتا الا یہ کہ جب راستہ وغیرہ مشترک ہو کیونکہ شفعہ تو ضرر رفع کرنے کے لیے ہوتا ہے اور ضرر اکثر کسی ملکیتی چیز میں اشتراک کی بنا پر یا راستے وغیرہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ 7۔اگر شفیع کو بیع کا علم ہوتو فوراً شفعے کا مطالبہ کرنے سے اس کا حق ثابت اور قائم رہے گا،اور اگر وہ شفعے کا مطالبہ نہیں کرتا تو اس کا حق شفعہ ساقط ہوجائے گا۔اگر اسے بیع کا علم نہ ہوتو اس کا حق شفعہ قائم رہے گا اگرچہ کئی برس گزر جائیں۔ ابن ہبیرہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ "علماء کا اتفاق ہے کہ صاحب حق اگر غائب ہے تو وہ جب بھی آئے گا اسے شفعے کے مطالبے کا حق حاصل ہوگا۔" شریکوں کے شفعے کا حق ان کے حصوں کے مطابق ہوگا۔اگر ایک شریک شفعے کے مطالبے سے دست بردار ہو جائے تو دوسرا شریک وہ پوری جائیداد خریدے یا پوری چھوڑ دے کیونکہ کچھ حصہ لینے میں مشتری کا نقصان ہے ۔اور ایک شخص کے نقصان کےازالے کے لیے دوسرے کو نقصان پہنچانا درست نہیں۔
[1] ۔صحیح البخاری الشفعۃ باب الشفعۃ فیمالم یقسم۔۔۔حدیث 2257 [2] ۔اعلام الموقعین:2/132۔