کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 97
درج بالا آیات واحادیث کے علاوہ قرآن وحدیث میں اور بھی بہت سےمشہورومعروف ایسے دلائل ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ غیر محرموں کے سامنے عورت کو اپنا جسم مکمل طور پر ڈھانپنا چاہیے۔نماز ہویا غیرنماز کسی حالت میں بھی(ان کی موجودگی میں) اسے اپنے بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہیں کرناچاہیے۔اگر عورت خلوت میں ہو اورکوئی اجنبی آدمی وہاں نہ ہوتو وہ نماز میں اپنا چہرہ کھول سکتی ہے کیونکہ حالت نماز میں چہرہ ستر نہیں۔صرف غیر محرم کے سامنے اس کا چہرہ پردے کے لائق ہے،جسے دیکھنا ان کے لیے جائز نہیں۔ نہایت افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ آج کے دور میں بہت سی مسلمان خواتین کا فر اور مرتد عورتوں کی تقلیدمیں پردے کے بارے میں کمزوری اور سستی کامظاہرہ کررہی ہیں،بلکہ جسم کی بے جانمائش میں مسابقت تک نوبت پہنچ چکی ہے۔وہ ایسا لباس پہن رہی ہیں جو جسم کو مکمل طور پر نہیں ڈھانپتا۔لاحول ولاقوۃ الا باللّٰه العلی العظیم۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حالت نماز میں ضروری پردہ سے بڑھ کر زینت کا حکم دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: "يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ" "اے اولادآدم!تم مسجد کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔"[1] یہ حکم اس امرپر واضح دلیل ہے کہ مسلمان کے لائق یہ ہے کہ وہ نماز میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوتے وقت صاف ستھرے اور نفیس کپڑے پہنے تاکہ اس کی ظاہری اور باطنی حالت مکمل طور پر اس کے شایان شان ہو۔ 3۔نجاست سے اجتناب کرنا:نماز کی صحت کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ نمازی ہرقسم کی نجاست سے احتراز واجتناب کرے۔اس کا بدن،کپڑے اور نماز کی جگہ پاک وصاف ہو۔ (1)۔نجاست ایسی مخصوص گندگی ہے جس کی معمولی مقدار بھی نماز کے لیے مانع ہے ،جیسے مردار،خون،شراب،پیشاب اورپاخانہ وغیرہ۔[2] اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: "وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ" "اپنے کپڑوں کو پاک رکھاکر۔"[3] امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ کامفہوم یہ بیان کیاہے:"اپنے کپڑے پانی کے ساتھ دھوئیے۔"[4]
[1] ۔الاعراف 7/31۔ [2] ۔درست بات یہی ہے کہ یہ دونوں چیزیں:مردار اور خون حرام تو ہیں لیکن نجس(پلید) نہیں ہیں، ہاں،حیض کا خون نجس ہے۔تفصیل کے لیے علامہ شوکانی کی کتاب السیل الجرار(1/137۔140)دیکھیے۔ [3] ۔المدثر 74۔4۔ [4] ۔تفسیر ابن جریر الطبری، المدثر 74۔4۔