کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 91
مغرب کی نماز کا آخری وقت سرخی غائب ہونے تک ہے۔نماز مغرب کو جلدی اور اول وقت میں ادا کرنا مسنون ہے۔سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: "أن رسول اللّٰهِ صلى اللّٰهُ عليه وسلم كان يصلي المغرب إذا غربت الشمس، وتوارت بالحجاب" "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب اس وقت ادا کرتے جب سورج پردوں کے پیچھے غروب ہوجاتا۔"[1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بعد کے اہل علم کا یہی قول ہے۔ (4)۔ نماز عشاء:نماز عشاء کا وقت نماز مغرب کے آخری وقت ،یعنی سرخی کے غائب ہونے کے فوراً بعدشروع ہوجاتا ہے اور طلوع فجر تک رہتا ہے۔نمازعشاء کا وقت دوطرح کا ہے: 1۔مختار وقت: جو تہائی رات تک رہتاہے۔ 2۔مجبوری کاوقت: جو تہائی رات سے لے کر طلوع فجر تک ہوتا ہے۔ نماز عشاء کوتہائی رات تک مؤخر کرنامستحب ہے،بشرطیکہ لوگوں کو اس میں آسانی ہو۔اگر مشقت ہوتو اسے اول وقت میں ادا کرنا بہتر ہے۔ نماز عشاء ادا کرنے سے پہلے سونا مکروہ ہے کیونکہ اس میں نماز کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہے۔اسی طرح نماز عشاء ادا کرنے کے بعد لوگوں کے ساتھ باتوں میں مشغول ہوناناپسندیدہ عمل ہے کیونکہ اس سبب سے انسان نہ جلدی سوسکتا ہے اور نہ صبح سویرے نماز کے لیے اٹھ سکتا ہے۔علاوہ ازیں نماز عشاء اداکرکے جلدی سوجانا چاہیے تاکہ رات کے آخری حصے میں نماز تہجد ادا کی جاسکے اور ہشاش بشاش طبیعت سے نمازفجر میں حاضر ہواجاسکے۔ حدیث میں ہے: "أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ ، وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا" "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرنا ناپسند کرتے تھے۔"[2] لیکن یہ تب ہے جب عشاء کے بعد جاگنا بے مقصد ہو۔اگرکوئی مفیدمقصد ہویا اہم ضرورت ہوتو تب جاگنے میں کوئی حرج نہیں۔
[1] ۔صحیح مسلم، المساجد، باب بیان ان اول وقت المغرب عندغروب الشمس، حدیث 636 وجامع الترمذی، الصلاۃ ،باب ماجاء فی وقت المغرب، حدیث 164۔ [2] ۔صحیح البخاری ،مواقیت الصلاۃ، باب ما یکرہ من النوم قبل العشاء، حدیث 568 وصحیح مسلم، المساجد، باب استحباب التبکیر بالصبح فی اول وقتھا۔حدیث:647۔