کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 86
(5)۔اذان اور اقامت دونوں اسلام کے ظاہری شعار ہیں۔یہ دونوں چیزیں صرف مردوں کے لیے پانچ نمازوں میں مشروع ہیں،وہ مقیم ہوں یاسفر کی حالت میں ہوں۔جس ملک یا شہر کے لوگ اذان اوراقامت کو چھوڑدیں ان سے قتال ہوگا کیونکہ یہ اسلام کے ایسے ظاہری شعائر ہیں جنھیں چھوڑنا اہل اسلام کے لیے جائز نہیں۔ (6)۔مؤذن کوان اہم صفات کا حامل ہونا چاہیے: 1۔اس کی آواز بلند اور اونچی ہو کیونکہ اس سے اعلان کا مقصد بہتر طور پر پورا ہوتا ہے۔ 2۔مؤذن قابل اعتماد اور امین شخص ہونا چاہیے کیونکہ نماز کاوقت ہوجانے اور روزہ رکھنے یا افطار کرنے میں اس کی اذان پر اعتبار واعتماد کیاجاتاہے۔ 3۔اسے وقت دیکھنا اور معلوم کرنا آتا ہوتا کہ اول وقت اذان کہہ سکے۔ (6)۔اذان پندرہ جملوں پر مشتمل ہے۔سیدنا بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہمیشہ یہی اذان کہا کرتے تھے۔مستحب یہ ہے کہ مؤذن اذان کے کلمات ٹھہر ٹھہر کرکہے لیکن انھیں نہ زیادہ لمبا کرے اور نہ کھینچے۔ہر جملے پر وقف کرے۔اذان دیتے وقت وہ قبلہ روہو۔اپنی انگلیاں کانوں میں ڈالے تاکہ آواز مزید بلند ہوجائے۔جب "حي علي الصلاة" کے کلمات کہے تو دائیں جانب منہ پھیرے۔اسی طرح "حي علي الفلاح" کا جملہ کہے تو بائیں طرف چہرہ پھیرے۔فجر کی اذان ہوتو حی "حي علي الفلاح" کے بعد " الصلاة خير من النوم" کا جملہ دو مرتبہ کہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے۔علاوہ ازیں یہ وقت ایسا ہوتا ہے جس میں عموماً لوگ سوتے ہیں۔ (7)۔مؤذن مسنون اذان کے شروع یا آخر میں کسی قسم کے الفاظ کا اضافہ نہ کرے کیونکہ یہ بدعت ہے،مثلاً:تسبیحات کہنا،اشعار پڑھنا،دعائیہ کلمات کہنا یا اذان سے پہلے یا بعد میں بلند آواز کے ساتھ "الصلاة والسلام عليك يا رسول اللّٰه" كہنا۔یہ سب کام حرام اور بدعت ہیں۔جو شخص ایساکرے اس کی تردید کرنا ضروری ہے۔ (8)۔اقامت گیارہ کلمات پر مشتمل ہے۔اقامت کے کلمات قدرے جلدی جلدی کہے جائیں کیوکہ اقامت کامقصد حاضرین کو نماز کے لیے کھڑےہونے کی اطلاع دیناہے،اس لیے اقامت کو آہستہ آہستہ اور بلند آوازسے کہنے کی ضرورت نہیں۔مستحب یہ ہے کہ جو اذان کہے وہی اقامت کہے۔اقامت امام کی اجازت سےکہی جائے کیونکہ اقامت کا دارومدار امام کی صوبدید پر ہے،لہذا جب امام کی طرف سے اشارہ ہوتب اقامت کہی جائے۔ (9)۔وقت سے پہلے اذان نہ کہی جائے کیونکہ اذان کا مقصد نماز کاوقت شروع ہونے کی اطلاع دینا ہے جو وقت سے پہلے اذان دینے سے حاصل نہیں ہوتا۔نیز اس سے سننے والے کو نماز کے وقت میں مغالطہ پڑجاتاہے۔اگر صبح کی اذان صبح صادق سے قبل ہوجائے تو جائز ہے تاکہ لوگ پہلے بیدار ہوکرنماز کی تیاری کرلیں۔لیکن ایسی صورت میں ضروری ہے کہ طلوع فجر کے وقت ایک اور اذان دی جائے تاکہ لوگوں کو نماز،روزے کے وقت کا علم ہوجائے۔