کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 85
(1)۔اذان کا حکم ہجرت کے پہلے سال ہی جاری ہوگیا تھا۔اس کی مشروعیت کا یہ سبب تھا کہ عام لوگوں کو نماز کے وقت کا علم نہ ہوتاتھا،چنانچہ اس کے لیے انھوں نے کوئی علامت مقرر کرنے کے لیے باہم مشورہ کیا۔سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب میں وہ کلمات بتائے گئے جو وحی کے ذریعے اذان کی صورت میں مقرر ہوگئے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ  " "اے وه لوگو جو ایمان لائےہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ و اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ "[1] نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ " "اور جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو۔"[2] (2)۔اذان اور اقامت ہر ایک میں ذکر کے مخصوص کلمات ہیں جو عقیدہ ایمان پر مشتمل ہیں،اذان کے ابتدائی کلمات میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور اس کے جلال وعظمت کاذکر ہے۔پھر توحید باری تعالیٰ کااثبات اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار واعلان ہے۔پھر نماز(جو دین اسلام کاستون ہے)کی ادائیگی کی طرف دعوت عام ہے۔پھر اس کامیابی کی طرف دعوت ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کی نعمتوں کی صورت میں جنت میں ملے گی۔پھراللہ تعالیٰ کی کبریائی وبزرگی کے اعلان کاتکرار ہے۔اور آخر میں وہ کلمہ اخلاص ہے جسے سب سے افضل اور اعلیٰ ذکر قراردیا گیاہے جس کا وزن اس قدر ہے کہ اگر اس کا مقابلہ وموازنہ سات آسمانوں سے اور جومخلوقات ان میں ہیں اور سات زمینوں اور جو کچھ ان میں ہے،سے کیا جائے تو یہ کلمہ وزن کے لحاظ سے بڑھ جائے۔ (3)۔اذان کی فضیلت میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔آپ نے فرمایا: "المؤذِّنُونَ أَطوَلُ النّاسِ أَعنَاقًا يومَ القِيامة" "روز قیامت موذنوں کی گردنیں سب سے اونچی ہوگی۔"[3] (4)۔اذان اور اقامت فرض کفایہ ہے،یعنی ایساحکم ہے جس کی ادائیگی تمام مسلمانوں پر فرض ہے،لیکن اگر اسے مناسب تعداد افراد ادا کردیں تو سب کی طرف سے کافی ہوگا۔وہ گناہ گار نہ ہوں گے۔
[1] ۔الجمعۃ 9/62۔ [2] ۔المائدۃ 5/58۔ [3] ۔صحیح مسلم، الصلاۃ، باب فضل الاذان وھرب الشیطان عند سماعہ، حدیث 387۔