کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 83
اس کے سرپرست دونوں کو اجر وثواب ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان عام ہے: "مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا " "جوشخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے۔"[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت چھوٹا بچہ لے کر آئی اور پوچھا:کیا اس کا حج ہوگا؟آپ نے فرمایا: "نَعَمْ وَلَكِ أَجْرٌ" "ہاں!اور تیرے لیے اجر ہے۔"[2] سرپرست اور ولی کو چاہیے کہ بچے کو نماز اور طہارت کے مسائل کی تعلیم دے۔اگر بچے کی عمر دس برس کی ہو جائے اور وہ نماز میں سستی کرے تو سرپرست اسے مار کر نماز پڑھائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "مُرُوا أَوْلادَكُمْ بِالصَّلاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ" "تمہارے بچے سات برس کے ہوں تو انھیں نماز کی تلقین کرو۔جب دس برس کے ہوجائیں اور نماز نہ پڑھیں توانھیں مارو۔اوران کے بستر الگ الگ کردو۔"[3] (2)۔نماز کا وقت ہوجائے تو اس کی ادائیگی میں تاخیرجائزنہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا" "یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔"[4] البتہ سفر وغیرہ میں ظہر کو عصر اور مغرب کو عشاء کے ساتھ ملاکر پڑھنے کی رخصت ہے۔لیکن رات کی نماز کو دن میں یا دن کی نماز کو رات میں ادا کرنا درست نہیں۔اسی طرح نماز فجر کو طلوع آفتاب کے بعد(بلاوجہ) پڑھناکسی صورت میں (جنابت ہو یانجاست) جائز نہیں،بلکہ ممکن حد تک اسے جلدی ادا کرنا چاہیے۔ بعض نادان لوگ علاج کی خاطر جب ہسپتال میں بیڈ پر ہوتے ہیں اور وضو کرنے کے لیے نیچے اتر نہیں سکتے یا ناپاک کپڑے تبدیل نہیں کرسکتے یا ان کے پاس تیمم کے لیے مٹی موجود نہیں ہوتی یاانھیں پانی یا مٹی مہیا کرنے والا کوئی ساتھی نہیں ہوتا تو اس حالت میں نماز کو مؤخر کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہمارا عذر ختم ہوجائےگا تو تب نماز ادا کرلیں گے۔اس طرح بسا اوقات وہ کئی ایک نمازیں چھوڑدیتے ہیں۔یہ بہت بڑی غلطی اور خطا ہے اور نماز
[1] ۔الانعام 6/160۔ [2] ۔صحیح مسلم ،الحج، باب صحۃ حج الصبی واجر من حج بہ، حدیث 1336۔ [3] ۔سنن ابی داود ،الصلاۃ باب متی یومر الغلام بالصلاۃ ،حدیث 495 ومسند احمد 2/187 واللفظ لہ۔ [4] ۔النساء:4/103۔