کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 78
(1)۔آج کل بازار سے دستیاب ہونے والی حفاظتی طبی اشیاء کا استعمال مناسب ہے۔ نفاس اور اس کے احکام نفاس اور حیض کے احکام حلت وحرمت میں یکساں ہیں،مثلاً:حیض ونفاس میں فرج میں جماع کے علاوہ بیوی سے تمتع جائز ہے اور دونوں میں جماع حرام ہے۔نماز روزہ منع ہے،طلاق،طواف کعبہ،تلاوت قرآن اور مسجد میں ٹھہرنا ممنوع ہے۔دونوں کے انقطاع پر غسل فرض ہے۔نفاس ہو یا حیض دونوں حالتوں میں نماز کی قضا نہیں،البتہ روزے کی قضا ہے۔ (2)۔نفاس ایک ایسا خون ہے جو ولادت کے بعد رحم سے آتا ہے۔یہ مدت حمل کا رکا ہوا بقیہ خون ہوتا ہے۔ نفاس کے خون کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد کے اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورت چالیس روز تک نماز ادانہ کرے۔ہاں اگر اس مدت سے پہلے اس کا خون نفاس بند ہوجائے اور اپنی طہارت کا اسے یقین ہوجائے تو غسل کرکے نماز ادا کرے۔"[1] اب وہ تمام کام کرسکتی ہے جو نفاس کیوجہ سے ممنوع تھے۔ (3)۔جب حاملہ عورت ایسا ناقص بچہ جنے جس کی شکل وصورت بن چکی ہو اور اس کے فوراً بعد اسے خون آئے تو وہ نفاس کا خون شمار ہوگا۔واضح رہے کہ عام طور پر تین ماہ کی مدت حمل میں انسان کی تخلیق نمایاں ہوجاتی ہے،جب کہ کم ازکم اکیاسی(81) دن ہوتے ہیں۔ (4)۔اگرعورت کا رحم(بچے کی بجائے)خون کالوتھڑا باہر ڈال دے،جس میں بچے کی تخلیق اور اس کی شکل وصورت نمایاں نہ ہوتو اس کے بعد رحم سے خارج ہونے والا"نفاس"نہ ہوگا،لہذا وہ نماز،روزہ نہ چھوڑے۔اسی طرح اس عورت پر نفاس کے دیگر جملہ احکام جاری نہ ہوں گے۔ اہم تنبیہ: یہاں ایک اہم مسئلہ پر تنبیہ کرنا نہایت ضروری ہے اور وہ یہ کہ بعض عورتیں رمضان المبارک کے روزوں کی تعداد مکمل کرنے کی خاطر یا مناسک حج کی تکمیل کے لیے مانع حیض گولیوں کا استعمال کرتی ہیں۔اگران گولیوں کا استعمال محض اس لیے ہے کہ چند دنوں کے لیے روک لیاجائے اور ایک مقصد پورا ہوجائے ،تب توکوئی حرج نہیں لیکن اگر ان کا استعمال خون حیض کو ہمیشہ کے لیے بند کرناہے تو یہ کام خاوند کی اجازت کے بغیر درست نہیں کیونکہ یہ نسل کو ختم کرنےوالا عمل ہے۔[2]
[1] ۔جامع الترمذی، الطھارۃ باب ماجاء فی کم تمکث النفساء ،تحت الحدیث 139۔ [2] ۔ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے الا یہ کہ کوئی اضطراری صورت پیدا ہوجائے۔(صارم)