کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 72
درج ذیل ہے: (1)۔حائضہ عورت کے لیے حیض کے ایام میں نماز اور روزہ منع ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے فرمایا: "إذا أقبلت الحيضة فدعي الصلاة" "جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دینا۔"[1] اگر کسی عورت نے دوران حیض روزہ رکھ لیا یا نماز ادا کرلی تو اس کا روزہ یانماز صحیح اور مقبول نہ ہوں گے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔یہ نہی عدم صحت کی متقاضی ہے بلکہ نماز روزہ رکھنے سے حائضہ عورت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمان شمار ہوگی۔ جب عورت حیض سے پاک وصاف ہوجائے تو روزے کی قضا دے لیکن نماز کی قضا نہ دے،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "كُنَّا نَحِيضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَطْهُرُ فَيَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّوْمِ، وَلَا يَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب ہم حیض کے ایام سے فارغ ہوتیں تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم ہوتا لیکن نماز کی قضا کا حکم نہ ملتا۔"[2] (2)۔حائضہ کے احکام میں یہ بھی ہے کہ وہ بیت اللہ کا طواف نہ کرے،قرآن مجید کی(پکڑ کر) تلاوت نہ کرے،مسجد میں نہ بیٹھے اور اس کا خاوند اس سے صحبت نہ کرے کیونکہ وہ حرام ہے حتیٰ کہ اسے حیض آنا بند ہوجائے اور غسل کرلے۔اللہ تعالیٰ نےفرمایا: "وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللّٰهُ  " " (اے پیغمبر!)آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وه پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وه پاک ہو
[1] ۔صحیح البخاری ،الحیض ،باب اذا رات المستحاضہ الطھر ،حدیث 331 وصحیح مسلم، الحیض، باب المستحاضۃ وغسلھا وصلاتھا ،حدیث 333۔ [2] ۔صحیح البخاری ،الحیض، باب لا تقضی الحائض الصلاۃ ،حدیث 321 وصحیح مسلم ،الحیض ،باب وجوب قضاء الصوم علی الحائض دون الصلاۃ ،حدیث 335 وسنن ابی داود، الطھارۃ ،باب فی الحائض لا تقضی الصلاۃ، حدیث 262۔263۔وسنن النسائی ،الصیام، باب وضع الصیام عن الحائض، حدیث 2320 واللفظ لہ۔