کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 67
اللہ تعالیٰ ہمیں قول وعمل میں صحیح اور سچ کی توفیق دے اور ہمارا ہر عمل خالص اس کی رضا کے لیے ہو،بے شک وہی دعاؤں کاسننے والا اورقبول کرنے والا ہے۔ نجاستیں دورکرنے کے احکام اور طریقے جس طرح نماز کے لیے وضو کرکے اعضائے بدن کو پاک صاف کرنا ایک مسلمان سے مطلوب ہے۔اسی طرح اس سے اپنے بدن،لباس اورنماز کی جگہ کو ہرقسم کی گندگی سے پاک رکھنا مطلوب ومقصود ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ " "اپنے کپڑوں کو پاک رکھاکر۔"[1] حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کوکپڑوں پر لگا ہوا حیض کاخون دھو ڈالنے کا حکم دیا تھا۔[2] اس موضوع کی نزاکت کے پیش نظر یقیناً آپ کا مطالبہ ہوگا کہ ہم یہاں نجاستوں کو زائل کرنے کے احکام اور طریقوں پر تفصیل سے روشنی ڈالیں تاکہ ہمارے مسلمان بھائی اس سےمستفید ہوسکیں۔ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر فقہائے کرام اپنی کتب میں"ازالة النجاسة" کے عنوان سے ایک مستقل باب قائم کرتے ہیں،جس میں اعضائے وضو،بدن،لباس،برتن،بستر،چٹائی اور نماز کی جگہ پر لگ جانے والی نجاستوں کو دور کرنے اور انھیں پاک صاف کرنے کے مسائل واحکام تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔ان جملہ احکام کا خلاصہ پیش خدمت ہے: (1)۔نجاست زائل کرکے طہارت حاصل کرنے کااول اور اصل ذریعہ"پانی"ہے۔اللہ تعالیٰ نے پانی کے اس وصف کو یوں بیان فرمایا ہے: "وَيُنَـزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ" "اور تم پر آسمان سے پانی برسارہاتھا کہ اس پانی کے ذریعے سے تم کو پاک کردے اور تم سے شیطانی وسوسے دفع کردے۔"[3] (2)۔اگر نجاست زمین،دیوار،حوض یا کسی پتھر وچٹان پر لگی ہوتو اس پرایک ہی بار پانی بہاکر دھودیا جائے ،نجاست
[1] ۔المدثر 4/74۔ [2] ۔ھذا معنی الحدیث واصلہ فی صحیح البخاری ،الوضوء ،باب غسل الدم،حدیث 227 والحیض، باب غسل دم المحیض، حدیث 307 وصحیح مسلم، الطھارۃ، باب نجاسۃ الدم وکیفیۃ غسلہ ،حدیث 291۔ [3] ۔الانفال:8/11۔