کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 66
تیمم کاطریقہ (تیمم کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے نیت کرے اور بسم اللہ کہے)انگلیاں کھول کر دونوں ہاتھ مٹی پر ایک بار مارے،پھر ہتھیلیوں کے ساتھ مکمل چہرے پر مسح کرے اور پشت ہاتھ پر پھیرے۔اگر کسی نے مٹی پر دوضربیں مار کر تیمم کیا،یعنی ایک ضرب سے چہرے پر اور دوسری ضرب سے ہاتھوں کا مسح کیا تو بھی جائز ہے۔[1] لیکن ایک ضرب والی صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ صحیح سند سے منقول ہے۔اور یہی طریقہ زیادہ بہتر ہے۔[2] (1)۔جن امور سے وضو ٹوٹ جاتا ہے،انھی سے تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔اسی طرح حدث اکبر،یعنی جنابت،حیض اور نفاس آنے سے بھی تیمم قائم نہیں رہتا کیونکہ متبادل شے کا وہی حکم ہوتاہے جو اصل شے کاہوتاہے۔علاوہ ازیں تیمم پانی میسر نہ آنے کی وجہ سے کیا گیاتھا ،جب پانی میسر آگیا تو تیمم باقی نہ رہے گا۔اگر کسی نے بیماری کی وجہ سے تیمم کیا تھا تو عذر کے ختم ہونے سے تمم بھی ختم ہوجائے گا۔ (2)۔اگر کسی شخص کے ہاں نہ پانی ہونہ مٹی،یا کسی بیماری کی وجہ سے اس میں وضو یاتیمم کرنے کی سکت نہ ہوتو وہ وضو یاتیمم کیے بغیر نماز ادا کرلے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی ہمت اور طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا۔اگرادائیگی نماز کے بعد پانی یا مٹی میسر آگئی یا اس شخص میں وضو کرنے کی ہمت پیدا ہوگئی تو وہ اداشدہ نماز نہ دہرائے کیونکہ اس نے حسب طاقت حکم الٰہی کی تعمیل کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ" "جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔"[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشیء فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ" "جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو تم حسب استطاعت اس کو ادا کرو۔"[4] میرے بھائی! یہ تیمم کے چند اہم مسائل تھے جو ہم نے آپ کے سامنے بیان کردیے ہیں،اگر پھر بھی کسی مسئلہ میں الجھن محسوس ہوتواہل علم سے اس کا حل معلوم کرلینا۔اپنے دینی امور میں سستی کا مظاہرہ نہ کرنا،خصوصاً نماز کا جو دین اسلام کاستون ہے،خیال رکھنا کیونکہ یہ بہت نازک اور اہم معاملہ ہے۔
[1] ۔سنن ابی داود ،حدیث 335۔342۔ [2] ۔صحیح البخاری ،التیمم باب المتیمم ھل ینفخ فیھا؟حدیث 338۔339۔ [3] ۔التغابن 64/16 ۔ [4] ۔صحیح البخاری ،الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ،حدیث 7288،وصحیح مسلم الحج باب فرض الحج مرۃ فی العمر، حدیث 1337 ومسند احمد 2/258۔