کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 62
"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ ، وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ" "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد سے وضو اور ایک صاع سے غسل کرلیاکرتے تھے۔"[1] ہمیں بھی چاہیے کہ آپ کی پیروی کرتے ہوئے کم از کم پانی کا استعمال کریں اور اسراف سے بچیں۔ (7)۔غسل کرنے والا شخص پردے کا اہتمام کرے۔لوگوں کے سامنے ننگا غسل نہ کرے۔حدیث میں ہے: "إِنّ اللّٰهَ حَيیّ سِتّيرٌ، يُحِبّ الحَيَاءَ والسّتْرَ، فَإِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُكُمُ فَلْيَسْتتِرْ " "اللہ تعالیٰ حیا والا ہے(عیب) چھپانے والا ہے۔وہ حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔جب کوئی غسل کرے تو(اچھی طرح) پردہ کرے۔"[2] (8)۔غسل جنابت بندے اور اس کےرب کے درمیان امانتوں میں سے ایک امانت ہے ،لہذا بندہ اس کی محافظت کرے،اس کے احکام کا خیال رکھے تاکہ وہ مسنون طریقے سے غسل ادا کرسکے۔اگر اسے غسل کے احکام ومسائل کا علم نہ ہوتو کسی سے پوچھ لے اور اس بارے میں جھجک اور شرم محسوس نہ کرے ارشاد نبوی ہے: "ان اللّٰه لا يستحيي من الحق" "اللہ تعالیٰ حق بیان کرتے نہیں شرماتا۔"[3] جو حیا دینی امور کے سیکھنے میں رکاوٹ ہے وہ حیا قابل مذمت ہے ،شیطانی کمزوری ہے۔شیطان ہرگز نہیں چاہتا کہ کوئی انسان اپنے دین میں کامل ہو اور اسے احکام دین کی معرفت ہو۔طہارت کامسئلہ ایک عظیم مسئلہ ہے۔اس میں کوتاہی انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ہے کیونکہ نماز دین اسلام کاایک ستون ہے جس کا دارومدار طہارت پر ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو دینی بصیرت سے نوازے اورقول وعمل میں اخلاص نصیب فرمائے۔ تیمم کے احکام اللہ تعالیٰ نے نماز کی ادائیگی کے لیے چھوٹی موٹی تمام نجاستوں سے"پاک پانی کے ساتھ طہارت"حاصل
[1] ۔صحیح البخاری الوضوء باب الوضوء بالمد ،حدیث 201وصحیح مسلم،الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ۔۔۔حدیث 325 واللفظ لہ۔ مد اور صاع کی وضاحت"وضو کا مفصل طریقہ" کے باب میں کردی گئی ہے۔ [2] ۔سنن ابی داود الحمام باب النھی عن التعری حدیث 4012 وسنن النسائی الغسل باب الاستتار عند الغسل ،حدیث 406 ۔407۔ [3] ۔ صحیح البخاری العلم باب الحیاء فی العلم ،حدیث 130 والغسل باب اذا احتلمت المراۃ، حدیث 282 وسنن النسائی الطھارۃ باب غسل المراۃ تری فی منامھا مایری الرجل، حدیث 196۔