کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 60
غسل فرض نہ ہوگا کیونکہ بیماری کی وجہ سے ایسا ہوسکتا ہے۔اگر حالت نیند میں منی کا خروج ہواتو وہ"احتلام"ہے،ایسے شخص پر غسل فرض ہوگیا کیونکہ اس صورت میں مبتلا شخص کو لذت یا عدم لذت کا شعور نہیں۔سو کراٹھنے والا شخص اگر منی کے ا ثرات دیکھے تو اس پر غسل فرض ہے۔اگر اسے احتلام کا احساس ہوا لیکن نہ منی نکلی اور نہ اس کے اثرات نظر آئے تو اس شخص پرغسل فرض نہ ہوگا۔ (2)۔جماع کرنا:اگرجماع کی صورت میں مرد کا آلہ تناسل عورت کی شرمگاہ میں داخل ہوگیا تو دونوں پر غسل فرض ہوجاتا ہے،منی کا انزال ہو یا نہ ہو۔حدیث میں ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِذَا جَلَسَ بَيْنَ شُعَبِهَا الأَرْبَعِ وَمَسَّ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ" "جب کوئی مرد بیوی کے قریب جائے اور مرد کی شرمگاہ عورت کی شرمگاہ سے مل جائے تو ان پر غسل فرض ہوگیا۔"[1] اس حدیث اور اہل علم کے اجماع کی بنا پرمردوعورت دونوں پر غسل فرض ہے منی کا انزال ہویا نہ ہو۔ (3)۔قبول اسلام:اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک کفر کوچھوڑکر دائرہ اسلام میں داخل ہونےوالے شخص پر غسل فرض ہوجاتا ہے۔حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو(جنھوں نے اسلام قبول کیا) غسل کرنے کا حکم دیا تھا۔[2] جب کہ جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ ایسے شخص پر غسل مستحب ہے،فرض نہیں کیونکہ یہ منقول نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والے ہر شخص کو غسل کرنے کاحکم دیا تھا،لہذا ان دلائل کی روشنی میں غسل کو استحباب پر محمول کریں گے۔(واللہ اعلم)[3] (4)۔موت کا واقع ہونا۔موت کی وجہ سے میت کو غسل دینا فرض ہے،البتہ میدان جنگ میں شہید ہونے والے کو غسل نہیں دیا جاتا۔تفصیل احکام الجنائز کے باب میں ذکر ہوگی۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (5)۔حیض اور نفاس کے خون کا منقطع ہونا:جب حیض یا نفاس کے ایام ختم ہوجائیں تو اس عورت پر غسل فرض ہو
[1] ۔صحیح البخاری، الغسل باب اذا التقی الختانان،حدیث۔291 وصحیح مسلم۔الحیض باب نسخ الماء من الماء ووجوب الغسل بالتقاء الختانین،حدیث:349 [2] ۔سنن ابی داود،الطھارۃ باب الرجل یسلم فیؤمر بالغسل،حدیث 355 وجامع الترمذی ،الطھارۃ باب ما ذکر فی الاغتسال عند ما یسلم الرجل،حدیث:605۔ [3] ۔ظاہر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم ہر اسلام قبول کرنے والے کے لیے واجب ہے ۔کسی ایک شخص کے لیے اسے خاص کرنا محل نظر ہے کیونکہ حکم عام ہے اور شرعی مسئلہ کے ثبوت کے لیے ضروری نہیں کہ ہر فرد کو الگ الگ حکم دیا جائے۔جب ایک شخص کے لیے حکم ثابت ہوتو تمام کے لیے ہوگا الا یہ کہ اختصاص کی کوئی دلیل ہو۔واللہ اعلم۔