کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 53
ہے، لہٰذا مدت مسح کی ابتدا جواز مسح کے ابتدائی وقت سے ہو جاتی ہے۔بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ مدت مسح اس وقت شروع ہوتی ہے جب حدث کے بعد مسح کیا جائے گا۔
موزوں اور جرابوں پر مسح کی شرائط
موزوں یاجرابوں وغیرہ پرمسح کرنا تب جائز ہے جب انھیں باوضو ہو کر پہنا ہو۔ صحیحین میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا ،جب انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتارنے کا ارادہ کیا:"رہنے دیں کیونکہ میں نے انھیں وضو کی حالت میں پہنا تھا۔"[1]
ایک دوسری روایت میں ہے:
"أمرنا أن نمسح على الخفين إذا نحن أدخلنا هما على طهر"
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو) حکم دیا کہ موزوں پر مسح تب کرنا جب انھیں وضو کر کے پہنا ہو۔"[2]
ان دلائل سے واضح ہوا کہ موزے یا جرابیں پہنتے وقت وضو کا ہونا شرط ہے۔ اگر کسی نے وضو کیے بغیر موزے یا جرابیں پہن لیے تو ان پر مسح کرنا جائز نہ ہو گا۔
پہنے ہوئے موزے یا جرابیں مباح ہوں ،اگر کسی سے چھین کریا چوری کر کے حاصل کیے ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح اگر کسی مرد نے ریشم کے موزےیا جرابیں پہنے ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز نہیں کیونکہ حرام میں "رخصت" کا استعمال ناجائز ہے۔
مسح کی ایک شرط یہ ہے کہ موزے یا جرابیں پاؤں کے اس حصے کو مکمل طور پر ڈھانپتے ہوں جن کا دھونا بحکم الٰہی فرض ہے ورنہ مسح کرنا درست نہیں۔
جرابیں موزوں کے قائم مقام ہیں، ان پر مسح کرنا تب جائز ہے جب وہ اون وغیرہ کی بنی ہوں اور اس قدر موٹی ہوں کہ ان کے نیچے سے پاؤں کی جلد نظر نہ آتی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جرابوں پر اور جوتوں پر مسح کیا تھا۔"[3]
[1] ۔صحیح البخاری الوضوء باب اذا ادخل رجلیہ وھما طاہرتان ،حدیث 206۔وصحیح مسلم الطہارۃ باب المسح علی الخفین ،حدیث274۔
[2] ۔مسند احمد 4/240واصل الحدیث عندالترمذی والنسائی وابن ماجہ بالا ختصار ۔
[3] ۔سنن ابی داؤد ،الطہارۃ باب المسح علی الجوربین، حدیث 159وجامع الترمذی، الطہارۃ، باب ماجاء فی المسح علی الجوربین و النعلین، حدیث 99 وسنن ابن ماجہ، الطہارۃ وسننھا باب ماجاء فی المسح علی الجوربین والنعلین ،حدیث559 ومسند احمد4/252صحیح روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہو گیا ۔باقی رہا مسئلہ جرابوں کا باریک یا موٹا ہونا تو روایت میں اس کی کوئی وضاحت نہیں۔ واللہ اعلم۔(صارم)