کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 52
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’ موزوں پر مسح کے بارے میں میرے دل میں ذرہ بھر بھی شک وشبہ نہیں، اس سے متعلق میرے علم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے چالیس احادیث ہیں۔‘‘[1] امام عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے: "موزوں پر مسح کے جواز میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا۔"[2] امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے موزوں پر مسح کے جواز میں علمائے امت کا اجماع نقل کیا ہے۔"[3] علاوہ ازیں اہل سنت کا اس مسئلے پر اتفاق ہے۔ماسوائے اہل بدعت کی ایک قلیل جماعت کے وہ اس کے جواز کے قائل نہیں۔ موزوں پر مسح کا حکم"رخصت" کا ہے ۔موزوں کو اتار کر پاؤں دھونے سے بہتر یہ ہے کہ ان پر مسح کیا جائے،اس میں اللہ تعالیٰ کی رخصت کو قبول کرنا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدار اور پیروی ہے، نیز بدعتی گروہ(منکرین مسح) کی مخالفت بھی ہے (جو ہونی چاہیے)۔ جن اعضاء پر موزے، جرابیں، پگڑی اور پٹی وغیرہ بندھی ہو مسح کرنے سے وہ دھونے کے حکم میں ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکلف سے کام نہیں لیتے تھے، قدموں کی جیسی حالت ہوتی ویسا ہی کام کر لیتے تھے، یعنی اگر موزے یا جرابیں پہنی ہوتیں تو مسح کر لیتے ورنہ پاؤں دھولیتے تھے، صرف مسح کی خاطر موزے یا جرابیں پہننا درست نہیں۔[4] اگر کوئی شخص مقیم ہو یا وہ مسافر ہو جس کا سفر اس قدر ہو جس میں نماز قصر کرنی جائز نہیں تو اس کی مدت مسح ایک دن رات ہے، اور اگر اس کا سفر اتنا ہو کہ اس میں نماز قصر کرنا جائز ہے تو اس کی مدت مسح تین دن اور تین راتیں ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: " لِلْمُسَافِرِ ثَلاثَة أَيَّامٍ وَلَيَالِيهنَّ ، وَ لِلْمُقِيمِ يَوْم وَلَيْلَة " "مسافر کے لیے مدت مسح تین دن اور ان کی راتیں ہے، جب کہ مقیم کے لیے ایک دن رات ہے۔"[5] کوئی شخص مقیم ہو یا مسافر دونوں حالتوں میں مدت مسح اس وقت شروع ہوگی جب موزے یا جرابیں پہننے کےبعد حدث (وضو کا ٹوٹنا) واقع ہوگا کیونکہ حدث ہی موجب وضو ہے، نیز مسح کا جواز حالت حدث سے شروع ہو جاتا
[1] ۔المغنی والشرح الکبیر:1/316۔ [2] ۔۔الاوسط لابن المنذر1/434۔ وفتح الباری 1/305۔ [3] ۔الاوسط لابن المنذر1/434۔ [4] ۔اس کی کوئی دلیل نہیں، لہٰذا ایسا کرنے میں حرج نہیں۔ [5] ۔صحیح مسلم، الطہارۃ، باب التوقیت فی المسح علی الخفین، حدیث: 276۔ومسند احمد 1/96واللفظ لہ۔