کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 42
اب اس اجمال کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں: شرائط وضو : صحت وضو کے لیے درج ذیل شرائط ہیں:اسلام عقل تمیز اور نیت بنا بریں کافر مجنون اور کم سن بچے (جنھیں شعور نہ ہو )کا وضو صحیح نہ ہو گا ،اسی طرح جس وضو میں"نیت" شامل نہ ہو وہ وضو بھی صحیح نہیں ہوتا، مثلاً:کسی شخص نے وضو کے اعضاء کو پانی سےٹھنڈک حاصل کرنے کی نیت سے دھویا یا اس کا مقصد ان اعضاء پر لگی ہوئی نجاست یا میل کچیل دور کرنا تھا تو ایسے شخص کا یہ عمل "وضو"قرارنہ پائے گا۔ وضو کے پانی کا پاک ہونا شرط ہے ،ناپاک پانی سے وضو نہیں ہوتا جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ صحت وضو کے لیے پانی کا مباح ہونا بھی شرط ہے اگر کسی نے ایسے پانی سے وضو کیا جو کسی سے چھین کر حاصل کیا گیا یا کسی اور غیر شرعی طور سے حاصل کیا گیا تو ایسے شخص کا وضو درست اور صحیح نہ ہو گا۔ وضو سے پہلے (اگر قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو تو) استنجاء کرنا یا مٹی کا استعمال بھی صحت وضو کے لیے ایک شرط ہے جس کی تفصیل گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ وضو کی صحت اور درست ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ ہر اس چیز کو اتاردیا جائے جس کی وجہ سے عضو کی جلد تک پانی نہ پہنچ سکتا ہو۔ وضو کرنے کے لیے ضروری ہےکہ اعضاء پر لگی ہوئی مٹی ،آٹا ،موم اور جما ہوا میل کچیل یا تہہ دار رنگ (ناخن پالش وغیرہ) اتار دے تاکہ وضو کا پانی بغیر کسی رکاوٹ کے عضو کی جلد تک پہنچ جائے۔ وضو کے فرائض: وضو کے فرائض (ارکان )چھ ہیں جو درج ذیل ہیں: مکمل چہرہ دھونا:اس میں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا بھی شامل ہے ۔ جس شخص نے چہرہ دھولیا لیکن کلی نہ کی ناک میں پانی نہ ڈالا یا ان دونوں میں سے ایک کام چھوڑ دیا تو اس کا وضو درست اور صحیح نہ ہو گا کیونکہ منہ اور ناک دونوں چہرے کا حصہ ہیں جنھیں دھونے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ" "سو اپنے چہرے دھوؤ۔"[1] جس شخص نے چہرے کا کوئی حصہ بھی(دھوتے وقت ) چھوڑدیا تو اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے وقت کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے تھے۔ ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[1] ۔المائدہ:5۔6۔