کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 384
"ان سے(خوب ) لڑائی کرو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں عذاب میں ڈالے گا اور انھیں رسوا کرے گا۔ اور تمھیں ان پر فتح دے گا اور مومنوں کے سینوں کو شفا (ٹھنڈک) بخشے گا۔ اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا۔ اور اللہ جس پر چاہے توجہ فرماتا ہے ۔اور اللہ خوب جاننے والا خوب حکمت والا ہے۔"[1] 4۔کفار کو اولاً دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جائے اگر وہ قبول نہ کریں تو ان کے خلاف جنگ اور قتال ہو گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتال سے پہلے کفار کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ بادشاہوں سے خط کتابت اسی مقصد کے لیے تھی۔"[2]آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی اسلامی لشکر کو روانہ کرتے تو انھیں نصیحت کرتے کہ" کفار سے لڑائی شروع کرنے سے پہلے انھیں اسلام کی طرف دعوت دینا ،اگر وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ورنہ ان سے جنگ کرنا۔[3]اس کی وجہ یہ ہے کہ دین اسلام میں جنگ کرنے کا مقصد کفرو شرک کا خاتمہ اور اللہ تعالیٰ کے دین میں لوگوں کو داخل کرنا ہے۔ اگر یہ مقصد لڑائی کے بغیر ہی حاصل ہو جائے تو لڑائی کی ضرورت ہی نہیں۔ جہاد کے مفصل مسائل و احکام حدیث و فقہ کی بڑی کتابوں میں موجود ہیں۔ جب کسی شخص کے والدین دونوں یا ان میں سے ایک مسلمان اور آزاد ہو تو نفل جہاد میں ان کی اجازت کے بغیر شریک نہ ہوجیسا کہ حدیث میں ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے جہاد میں جانے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: "أحَيٌّ وَالِداكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَفيهِمَا فَجَاهِدْ" "کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟"اس نے کہا: ہاں!تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:"پھر تو والدین کی خدمت کی صورت میں جہاد کر۔"[4] اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین سے حسن سلوک فرض عین ہے جبکہ جہاد فرض کفایہ ہے اور ظاہر ہے کہ فرض عین فرض کفایہ سے مقدم ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے امام کو چاہیے کہ وہ لشکر روانہ کرتے وقت اس کا جائزہ لے اور فوجی یا جانور (گھوڑے وغیرہ) لڑائی کے قابل نہ ہوں ان کو علیحدہ کر دے جیسے کمزور فوجی یا گھوڑے وغیرہ جو پیچھے رہ جاتے ہوں یا افواہیں پھیلانے والے لوگ یہ چیزیں فوج کو لڑانے سے بے رغبت کرتی ہیں اور ان کے حوصلے پست کرتی ہیں۔
[1] ۔التوبہ:9/14۔15۔ [2] ۔۔صحیح البخاری الجہاد والسیر باب دعاء النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم الی الاسلام والنبوۃ حدیث2941۔ [3] ۔صحیح البخاری الجہاد والسیر باب دعاء النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم الی الاسلام والنبوۃ حدیث2942۔ [4] ۔صحیح البخاری الجہاد باب الجہاد باذن الابوین حدیث 3004۔