کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 383
والوں اور مجاہدین میں فتنہ کھڑا کرنے والوں کو لشکر میں شامل نہ ہونے دے۔ خلیفۃالمسلمین کو چاہیے کہ وہ اسلامی لشکر کا ایک ایسا امیر مقرر کرے جو ان کے جملہ امور شرعی طریقے کے مطابق چلائے اور امور جنگ میں ماہر ہو۔
لشکر میں شریک مجاہدین اپنے امیر کی ہر معروف میں اطاعت کریں اس کے ساتھ خیر خواہی کریں اور اس کے ساتھ صبر و استقامت سے وابستہ رہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ"
"اے ایمان والو! تم فرمانبرداری کرو اللہ کی اور فرمانبرداری کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے اختیار والے ہیں۔[1]
واضح رہے جہاد ایک بلند نصب العین اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے مشروع کیا گیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:
1۔جہاد کو اس لیے مشروع قراردیا گیا تاکہ اللہ کے بندوں کو طاغوتوں اور بتوں کی عبادت سے نجات دلا کر اس اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک کی عبادت میں لگا یا جائے جس نے انھیں پیدا کیا اور وہی انھیں رزق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّٰهِ"
"اور تم ان(کفار) سے اس حد تک لڑو کہ فتنہ (شرک ) نہ رہے اور دین سارا اللہ ہی کا ہو جائے۔"[2]
2۔جہاد کا ایک مقصد ظلم کا خاتمہ اور اہل حقوق تک ان حقوق کا پہنچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللّٰهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (39) الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللّٰهُ ۗ "
"جن لوگوں سے لڑائی کی جاتی ہے انھیں (جہاد کی) اجازت دی گئی ہے، اس لیے کہ ان پر ظلم ہوااور یقیناً اللہ ان کی مدد پر ضرور قادر ہے۔ وہ لوگ جنھیں ان کے گھروں سے ناحق نکال دیا گیا ،صرف اس لیے کہ وہ کہتے ہیں: ہمارا رب اللہ ہے۔"[3]
3۔جہاد کی ایک غرض کفار کو مطیع اورپست کرنا، ان سے ظلم کا انتقام لینا اور ان کی طاقت و قوت کو کمزور کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ ﴿١٤﴾ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ ۗ وَيَتُوبُ اللّٰهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللّٰهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ "
[1] ۔النساء4/59۔
[2] ۔الانفال:8/38۔
[3] ۔الحج 22۔39۔40۔