کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 382
فی سبیل اللہ سے پھرنا جائز نہیں۔ 2۔جب دشمن کی فوج اس کے شہر کا محاصرہ کر لے۔ ان دونوں صورتوں میں یہ دفاعی جہاد ہو گا ،اقدامی نہیں ۔ اگر مسلمان اس وقت جہاد سے کنارہ کش ہو جائیں گے تو کافر مسلمانوں پر غالب آجائیں گے اور ان کی عزتوں اور مقدس مقامات پر قابض ہو جائیں گے۔ 3۔جب مسلمانوں کا امام یا خلیفہ اعلان جہاد کر کے ان سے نکلنے کا مطالبہ کرے تواس وقت جہاد فرض عین ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "وإذا استنفرتم فانفروا" "جب تم سے نکلنے کا مطالبہ کیا جائے تو(جہاد کے لیے) نکل پڑو۔"[1] اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا" "اے یمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑجاؤ تو ثابت قدم رہو۔"[2] نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ" "اے ایمان والو! تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں نکلو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو۔"[3] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’جہاد ہاتھ کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں دعوت الی اللہ اور حجت قائم کرنے کے ساتھ دفاعی پالیسیاں ترتیب دینے اور دفاعی صنعتوں کے قیام کے ذریعے سے بھی جہاد ہوتا ہے، لہٰذا ہر ممکن حد تک ان امور میں حصہ لینا واجب ہے۔ اور جو لوگ میدان جہاد میں جانے سے معذور ہوں وہ میدان جہاد میں جانے والے مجاہدین کے گھروں اور ان کے اہل و عیال کی نگہداشت کریں۔‘‘[4] مسلمانوں کے خلیفہ و امام کا فرض ہے کہ جب جہاد فی سبیل اللہ کے لیے کوئی لشکر روانہ کرے تو پورے لشکر کا ازسر نو جائزہ لے اور اچھی طرح اس کا معائنہ کرے جو مردیا جانور لڑائی کے قابل نہ ہوں انھیں روک لے یا جو شخص جہاد کے عمل میں کسی رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہو اسے بھی روک دے۔ اسی طرح جو لوگ غلط افواہیں پھیلاکر جہاد کرنے والوں کی ہمت و جذبہ کمزور کرتے ہیں انھیں بھی لشکر میں شامل نہ کیا جائے۔ دشمن کے لیے جاسوسی کرنے
[1] ۔صحیح البخاری الجہاد والسیر باب فضل الجہاد والسیر حدیث2783۔ [2] ۔الانفال8/45۔ [3] ۔التوبہ:9/38۔ [4] ۔الفتاوی والکبری لا بن تیمیہ ، الاختیارات العلمیہ :5/538۔