کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 38
مسواک کرنا: کسی درخت کی شاخ کے ساتھ دانتوں اور مسوڑھوں پر جما ہوا میل کچیل اتارنا اور بدبو کو ختم کرنا خصائل فطرت میں شامل ہے۔ حدیث میں ہے کہ مسواک کرنا انبیائے کرام کی سنت رہی ہے۔[1]سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے مسواک استعمال کی ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مسواک منہ کو صاف کرنے اور رب تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔"مسواک کی فضیلت واہمیت کے بارے میں سوکے قریب احادیث ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مسواک کرنا سنت مؤکدہ ہے اور بہت سے فوائد کا حامل عمل ہے، ان میں سب سے بڑا اور اہم فائدہ منہ کی صفائی ہے اور رب تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ مسواک (مناسب یہ ہے کہ) قدرے نرم شاخ سے حاصل کی جائے جو پیلو یا زیتوں کی ہو یا کھجور کے گچھے کی شاخ ہو یا کوئی ایسی شاخ ہو جو نہ بہت زیادہ نرم ہو اور نہ اس قدر سخت ہو کہ منہ کو زخمی کردے۔ مسواک کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے۔ روزے دار شخص دن میں کسی بھی وقت مسواک کر سکتا ہے۔ وضو کے وقت مسواک کرنے کی زیادہ تاکید ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك عند كل وضوء" "میری امت پر مشکل نہ ہوتا تو میں انھیں حکم دیتا کہ وہ ہر وضو کے ساتھ مسواک کیا کریں۔"[2] اس حدیث میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنا مستحب قرار دیا گیا ہے۔ مسواک کلی کرنے کے وقت استعمال کی جائے کیونکہ اس سے منہ کی خوب صفائی ہو جاتی ہے۔ فرض یا نفل نماز کے وقت بھی مسواک کرنے کی بہت تاکید آئی ہے کیونکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کے وقت کامل طور پر طہارت و نظافت حاصل کریں تاکہ عبادت کے شرف و عظمت کا خوب اظہار ہو۔ رات یا دن کے کسی حصے میں نیند سے بیدار ہوتے وقت بھی مسواک کرنے کی بہت تاکید آئی ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے: "كَانَ النَّبِيُّ -صلى اللّٰهُ عليه وسلم-إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ"
[1] ۔(ضعیف)جامع الترمذی، النکاح، باب ماجاء فی فضل الترویج والحث علیہ، حدیث 1080۔ [2] ۔المصنف لابن ابی شیبہ باب ماذکر فی السواک 1/155حدیث:1787۔ورواہ البخاری تعلیقاً باب السواک الرطب والیابس للصائم، قبل حدیث 1934۔واصلہ متفق علیہ، صحیح البخاری، الجمعۃ باب السواک یوم الجمعۃ ،حدیث: 887۔وصحیح مسلم الطہارۃ، باب السواک، حدیث 252۔