کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 378
دلچسپی لیں کیونکہ بچپن میں ایسی تربیت زیادہ کار گر اور مؤثر ہوتی ہے ورنہ بڑی عمر میں اس کی تلافی نہ ہو سکے گی۔ آپ دیکھیں گے کہ بہت سے بچوں کے اخلاق و کردار کے بگاڑ کا سبب بچپن میں اس کی صحیح تربیت نہ کرنا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے: وينشأُ ناشئُ الفتيانِ منا ... على ماكان عَوَّدَهُ أبوهُ نوجوان اسی طریقے پر پروان چڑھتے ہیں جس طرح ان کے والد نے ان کی تربیت کی ہو۔ اولاد کو غلط لہو ولعب سے اور برے دوستوں کی مجالس سے دور رکھنا نہایت ضروری ہے۔ والدین اپنی اولاد کو گھر میں اچھا ماحول مہیاکریں کیونکہ بچے کے لیے گھر اس کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے جس میں اس کے والدین اور دیگر اہل خانہ رہتے ہیں۔ بچوں میں شراور خرابی پیدا کرنے والے اسباب کو گھروں سے دور ہی رکھنا چاہیے (مثلاً:مخرب اخلاق رسالے اور ڈائجسٹ ، فلمی گانوں اور فحش لطیفوں والی کیسٹیں ،ٹی وی ،وی سی آر،ڈش ،کیبل وغیرہ سے جن میں فحش لچراور لادینی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔) علاوہ ازیں بچوں کی اس طرح تربیت کی جائے کہ ان کا دل و دماغ عبادات ،اطاعت، احترام دین اور قرآن وحدیث کی تعلیم کی طرف مائل ہو جائے کیونکہ یہ چیزیں دنیا و آخرت کی سعادت کا باعث ہیں۔ الغرض ایک والد اور سر پرست پر لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے ان کے اخلاق و معاملات اور عادات کے سنوار نے میں خود اچھا نمونہ بنے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے اعمال کی توفیق دے جو اسے محبوب اور پسندہوں ۔آمین۔