کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 377
عبدالکعبہ النبی ،عبدالمسیح عبد علی، اور عبدالحسین وغیرہ۔ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ہر وہ نام رکھنا حرام ہے جس میں غیر اللہ کی طرف عبدیت کی نسبت ہو، مثلاً: عبد عمر ، عبد الکعبہ وغیرہ۔ اسی طرح غیر مناسب نام رکھنا بھی مکروہ ہے ،مثلاً: عاصی ،کلیب ،حنظلہ، مرہ (کڑوا) حزن (غم ،سخت) اسی طرح اپنی اولاد کے وہ نام رکھنے جو برے اشخاص یا بری جگہوں کے ہوں مکروہ ہیں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِنَّ أَحَبَّ أَسْمَائِكُمْ إِلَى اللّٰهِ عَبْدُ اللّٰهِ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ" "اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہارے ناموں میں سے پسندیدہ نام"عبداللہ"اور "عبدالرحمٰن"ہیں۔"[1] الغرض ہر مسلمان کے لائق ہے کہ وہ اپنے نومولود کا اچھا سا نام رکھے اور حرام و مکروہ قسم کے نام سے اجتناب کرے کیونکہ یہ والد کے ذمے اولاد کا حق ہے۔"[2] عقیقہ میں وہی جانور کفایت کرتا ہے جو قربانی میں کفایت کرتا ہے، یعنی مناسب عمرہو(دودانتا ہونا ضروری نہیں) اچھی خوبیوں سے آراستہ ہو، عیب و مرض سے محفوظ ہو۔ جسمانی حالت خوب اور کامل ہواور موٹا تازہ ہو۔اس کا گوشت خود کھانا ،کسی کو ہدیہ دینا اور صدقہ کے طور پر دینا مستحب ہے۔ بہتر یہ ہے کہ قربانی کے جانور کی طرح اس کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں۔[3] عقیقے کے بعض احکام عید الاضحیٰ کی قربانی سے مختلف ہیں۔ عقیقے کی قربانی میں شراکت جائز نہیں، لہٰذا اونٹ یا گائے عقیقے میں کامل طور پر قربان کی جائے کیونکہ عقیقہ جان کا فدیہ ہے جس میں شراکت درست نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔[4] والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی طرح تربیت کرنے اور انھیں محاسن واخلاق سے آراستہ کرنے میں
[1] ۔صحیح مسلم الادب باب النھی عن التکنی بابی القاسم حدیث2132۔ [2] ۔بچوں کے نام رکھنے سے متعلق مکمل راہنمائی کے لیے کتاب "پیارے نام"کا مطالعہ فرمائیں، نیز’’اسلامی ناموں کی ڈکشنری‘‘ طبع دارالسلام کا مطالعہ فرمائیں۔(ادارہ) [3] ۔مؤلف رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے متعلق کوئی دلیل پیش نہیں کی۔(صارم) [4] ۔ عقیقے میں اونٹ گائے کا ذبح کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔ حدیث شریف میں صرف شاۃ کا ذکر ہے جس کا اطلاق بکری بکرے مینڈھے یا دنبے وغیرہ پر ہوتا ہے۔(صارم)