کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 375
عقیقہ کے مسائل عقیقہ کرنا حقوق اولاد میں سے والد کے ذمے ایک حق ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے تقرب کی خاطر ایک جانور (بکرایا چھترا) ذبح کرنا ہو تا ہے۔ عقیقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں کا عقیقہ کیا تھا جیسا کہ سنن ابو داؤد میں ہے: " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا كَبْشًا كَبْشًا..... وفي سنن النسائي « كَبْشَيْنِ كَبْشَيْنِ " "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ایک ایک مینڈھا ذبح کر کے کیا ۔"[1] سنن نسائی میں ہے:" آپ نے دو دو مینڈھے ذبح کیے۔"[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد تابعین اپنی اولاد (کی طرف سے) کے عقیقے کرتے آئے ہیں۔ بعض اہل علم عقیقے کو واجب قراردیتے ہیں۔ ان حضرات کی دلیل سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "كل غلام مرتهن بعقيقته " "ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے۔"[3] امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ وہ بچہ اپنے والدین کے حق میں سفارش کرنے کا اہل نہ ہو گا جب تک اس کا عقیقہ نہیں کیا جاتا۔"[4] امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"بچے کا عقیقہ اس کے حسن اخلاق اور اعلیٰ عادات کا سبب ہے۔" صحیح اور درست بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ عقیقہ سنت مؤکدہ ہے۔ عقیقے میں جانور ذبح کرنا اس کی قیمت کے
[1] ۔سنن ابی داود الضحایا باب فی العقیقہ حدیث 2841۔ [2] ۔سنن النسائی العقیقہ باب کم یعق عن الجاریۃ حدیث4224اور یہی راجح ہے دیگر صحیح احادیث کے بھی موافق ہے۔ دیکھیے: ارواء الغلیل 4/379۔(ع۔و) [3] ۔سنن ابن ماجہ الذبائح باب العقیقۃ حدیث 3165۔ [4] ۔زاد المعاد 2/326۔