کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 372
جان کے فدیے کے قائم ہے جو گناہوں کی وجہ سے تباہی کی مستحق ہو گئی تھی۔" اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ " "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں دے رکھے ہیں:"[1] چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جانور ذبح کرنا اور خون بہانا تمام شریعتوں میں مشروع عمل رہا ہے۔ قربانی کے جانوروں کی دو قسمیں ہیں: ہدی جو جانور جیسے: اونٹ گائے وغیرہ حرم کی طرف لایا جائے اور وہیں ذبح کیا جائے اسے ہدی کہتے ہیں ۔اس کا نام ہدی اس لیے ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے قربان کیا جاتا ہے۔ اُضحیہ اس جانور کو کہتے ہیں جو اللہ کے تقرب کے لیے عید کےروز اور ایام تشریق میں ذبح کیا جائے۔ سب سے افضل قربانی اونٹ کی قربانی ہے، پھر گائے کی بشرطیکہ اکیلے شخص کی طرف سے ہو کیونکہ یہ جانور قیمت کے لحاظ سے مہنگے ہوتے ہیں ،نیز ان میں فقراء مساکین کا فائدہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اونٹ، گائے کے بعد بکرے مینڈھے یا دنبے کا درجہ ہے۔ پھر ہر جنس میں سے جو جانور خوب موٹا تازہ ہو اور زیادہ قیمتی ہو وہ افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ" "اور جو شخص اللہ کی (عظمت کی) نشانیوں کی تعظیم کرے تو بلا شبہ یہ دلوں کی پرہیز گاری کی وجہ سے ہے۔"[2] دنبہ یا مینڈھا جذع یعنی چھ ماہ کا ہو جائے تو اس کی قربانی جائز ہے(جمہور کے نزدیک "جذع "ایک سال کے دنبے یا مینڈھے کو کہتے ہیں) البتہ اونٹ گائے ، بکری کا دودانتا ہونا ضروری ہے۔ واضح رہے اونٹ چھٹے سال میں گائے تیسرے سال میں اور بکری بھیڑ، دنبہ دوسرے سال میں داخل ہوجائے تو عموماً دودانتا ہو جاتا ہے۔ حج میں بطور ہدی بکرایا مینڈھا صرف ایک شخص کی طرف سے قربان کیا جا سکتا ہے جبکہ عید الاضحیٰ میں ایک شخص اور اس کے اہل و عیال کی طرف سے کافی ہوتا ہے، البتہ اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں ،چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
[1] ۔الحج 22۔34۔ [2] ۔الحج 22۔32۔