کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 36
"پیشاب سے بچو، زیادہ تر یہی چیز عذاب قبر کا سبب بنتی ہے۔"[1] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو صحیح الاسناد قراردیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس حدیث کے شواہد ہیں اور اس کی اصل صحیحین میں ہے۔[2] میرے بھائی! طہارت کامل ہوتو عبادت کی ادائیگی آسان ہو جاتی ہے بلکہ تکمیل طہارت، مسنون طریقے سے عبادت کو سر انجام دینے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔ حضرت شبیب ابو روح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: "ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ اس میں آپ نے سورۃ روم کی تلاوت شروع کی تو اختلاط و نسیان واقع ہونے لگا، نماز سے فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا: "إِنَّهُ يَلْبِسُ عَلَيْنَا الْقُرْآنَ، أَنَّ أَقْوَامًا مِنْكُمْ يُصَلُّونَ مَعَنَا لا يُحْسِنُونَ الْوُضُوءَ، فَمَنْ شَهِدَ الصَّلاَةَ مَعَنَا فَلْيُحْسِنِ الْوُضُوءَ" "مجھے قرآن مجید کی تلاوت میں اختلاط و نسیان ہو رہا تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ہمارے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں لیکن وہ اچھی طرح وضو نہیں کرتے۔خبردار !جوشخص ہمارے ساتھ نماز ادا کرے وہ اچھی طرح وضو کرے۔"[3] اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسجد قبا میں نماز پڑھنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہت تعریف کی ہے، فرمایا: "فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ" "اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں۔ اور اللہ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے۔"[4] جب ان سے طریقہ طہارت پوچھا گیا تو انھوں نے جواباً کہا کہ ہم مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی بھی استعمال کرتے ہیں۔"[5] تنبیہ: جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ بعض اہل علم کے نزدیک استنجاء کرنا وضو کا حصہ ہے، لہٰذا جب بھی وضو کیا جائے تو اس سے پہلے استنجا ء ضرور کیا جائے اگرچہ وہ اس سے پہلے (قضائے حاجت سے فراغت کے بعد) استنجاء کر چکا ہو۔
[1] ۔سنن الدارقطنی:1/127۔حدیث 457۔ [2] ۔صحیح البخاری الوضو باب من الکبائر ان لایستتر من بو لہ ،حدیث 216۔وصحیح مسلم الطہارۃ، باب الدلیل علی نجاسۃ البول ووجوب الاستبراء منہ ،حدیث 292۔ [3] ۔مسند احمد 3/47247۔ [4] ۔النور:9/108۔ [5] ۔(ضعیف) مختصر زوائد مسند البزار 1/155۔ یہ روایت ضعیف ہے، تاہم استنجا کرتے وقت صرف مٹی کے ڈھیلے یا ڈھیلے اور پانی یا صرف پانی استعمال کرنا جائز ہے۔