کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 356
اقسام یہ ہیں: حج افراد: اس میں حاجی صرف حج کا احرام باندھتاہے اور دس ذوالحجہ کو جمرات کی رمی تک وہ احرام ہی کی حالت میں رہے گا،دس ذوالحجہ کو سرمنڈوائےگا،طواف افاضہ کرے گا اور صفاومروہ کی سعی کرے گا اگراس نے طواف قدوم کے ساتھ سعی نہ کی ہو۔ حج قِران: اس میں حاجی حج اور عمرے کااحرام اکٹھا باندھتا ہے۔اس میں باقی کام حج افراد والے ہی ہیں سوائے ہدی(قربانی) کے کہ وہ واجب ہوتی ہے۔ حج تمتع: اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے حاجی میقات سے عمرے کااحرام باندھے،مکہ پہنچ کر طواف اور سعی کرے اور بال کٹوا کر حلال ہوجائے اور یوم الترویہ تک حلال رہے،پھر یوم الترویہ کو حج کا احرام باندھے۔(حج تمتع میں بھی قربانی واجب ہے اور سعی حج افراد کی طرح ہے،یعنی سعی دوبار کرے گا۔) حج کی تینوں اقسام میں سے حج تمتع افضل قسم ہے،حج افراد یا حج قران والا جو اپنے ساتھ قربانی نہیں لایا،اپنے حج کی نیت کو بدل کر حج تمتع کرسکتا ہے اور باقی اعمال وہ حج تمتع والے کی طرح کرے گا۔ (2)۔مکہ مکرمہ سے باہریا اس کے قریب وجوار میں رہنے والاشخص(جس نے حج افراد یا قران کی نیت کی ہو) اپنی نیت بدل کرحج تمتع کرسکتا ہے۔ایسا شخص عمرے سے فارغ ہوکر حالت احرام ختم کردے،پھر یوم الترویہ، یعنی آٹھ ذوالحجہ کو حج کےلیے احرام باندھے۔سیدناجابر رضی اللہ عنہ کے حج کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "فحل الناس كلهم وقصروا، إلا النبي صلى اللّٰهُ عليه وسلم ومن كان معه هَدْي، فلما كان يوم التروية توجهوا إلى منى، فأهلّوا بالحج" "سب نے احرام کھول دیے اور حجامت بنوالی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جو شخص قربانی لے کرآیا تھا انھوں نے حالت احرام کوقائم رکھا۔جب یوم الترویہ آیاتو انھوں نے حج کااحرام باندھا اور منیٰ کی جانب رواں دواں ہوگئے۔"[1] (3)۔آٹھ ذوالحجہ کو حج کے لیے احرام اپنی رہائش گاہ ہی سے باندھا جائے۔مکہ شہر میں رہائش ہو یا اس کے قرب وجوار میں ہو یامنیٰ میں ہو۔احرام باندھ کر(منیٰ جانے سے پہلے) فوراً طواف کرنے کی ضرورت نہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" جب آٹھ ذوالحجہ ہوتو حاجی احرام باندھ لے اور وہی کام کرے جو
[1] ۔صحیح مسلم، الحج، باب حجۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم حدیث 1218۔