کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 349
"اور اپنے سرنہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی قربان گاہ تک نہ پہنچ جائے۔"[1] محرم کے لیے سر منڈوانے کی نہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ واضح حکم موجود ہے۔ اس نص شرعی کا اطلاق بالا تفاق جسم پر موجود تمام بالوں پر ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی سر کے بالوں کی طرح ہیں، نیز سر کے بالوں کی طرح ان کو زائل کرنے سے بھی زینت و صفائی حاصل ہوتی ہے جو احرام کی حالت کے منافی ہے کیونکہ ایک محرم کا پراگندہ بالوں والا اور غبارآلود ہ ہونا اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے۔ اگر محرم کی آنکھ میں بال اُگ آئیں (جنھیں پڑبال کہتے ہیں) تو انھیں اکھاڑ دینے سے کوئی فدیہ لازم نہ آئے گا کیونکہ آنکھ بالوں کا محل نہیں، نیز وہ بال تکلیف کا باعث ہیں۔ 2۔ہاتھ یا پاؤں کے ناخن کاٹنا: ہاتھ پاؤں کے ناخن کاٹنے منع ہیں، البتہ اگر کسی ناخن کا کچھ حصہ خود بخود ٹوٹ گیا، پھر محرم نے تکلیف کی وجہ سے باقی ناخن بھی کاٹ کر الگ کر دیا یا ناخن خود ہی ٹوٹ کر الگ ہو گیا تو اس پر کوئی فدیہ نہیں کیونکہ اس کے بارے میں محرم معذور ہے۔ اگر کسی نے جوئیں پڑجانے یا دردسر وغیرہ کی وجہ سے سر منڈوالیا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے: "فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ" "پھر اگر کوئی شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو( اور وہ سر منڈوالے) تو فدیے میں روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔"[2] علاوہ ازیں سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میرے سر میں جوئیں پڑنے کی وجہ سے مجھے تکلیف تھی ،چنانچہ مجھے اس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ما كنتُ أرى أن الجَهْد بلغ منك ما أرى، أتجد شَاةً؟))،فقلتُ: لا، فنزلت الآية: ﴿ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ﴾ قال: (( صوم ثلاثة أيام، أو إطعام ستة مساكين، نصف صاع طعاما لكل مسكين)) وفی لفظ:ا و اذبح شاة" "میں تو نہیں سمجھتا تھا کہ تمھیں اس قدر تکلیف ہو گی۔ تم بکری ذبح کرنے کی طاقت رکھتے ہو؟میں نے کہا :نہیں !تب آیت کریمہ :﴿ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ﴾"تو وہ فدیے میں روزے رکھے یا
[1] البقرہ:2/196۔ [2] ۔البقرۃ:2/196۔