کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 346
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" کوئی شخص محض دل کی نیت اور ارادے سے محرم نہیں ہوتا۔ ارادہ تو اس وقت ہی شامل ہو گیا تھا جب وہ اپنے شہر سے چل پڑا تھا بلکہ نیت کے ساتھ ایسا قول و عمل بھی ضروری ہے جس سے وہ محرم قرارپائے(اور وہ تلبیہ و احرام باندھنا ہے۔)[1] حج کے لیے احرام باندھنے سے قبل درج ذیل چیزوں کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ حج جیسی عظیم عبادت کا استقبال شایان شان طریقے سے ہو سکے۔ غسل کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کے لیے غسل کیا تھا ۔غسل سے بدن کی طہارت و نظافت خوب طرح سے ہو جاتی ہے اور بدبو کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ بہر حال احرام کے وقت غسل کرنا مطلوب و مقصود ہے حتی کہ حیض یا نفاس کا دوران ہو تو بھی عورت غسل کرے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ا سماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو ایام نفاس کے دوران میں غسل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی غسل کا حکم دیا ،حالانکہ ان کے ایام حیض جاری تھے ۔اس غسل میں حکمت یہ ہے کہ نظافت حاصل ہواور بدبو کا ازالہ ہو۔ نیز حیض اور نفاس والی عورت کی ناپاکی و پلیدی میں تخفیف ہو جائے۔ حجامت بنوانا جب احرام باندھنے کا ارادہ ہو تو مستحب یہ ہے کہ جسم کی خوب اور اچھی طرح صفائی کر لی جائے۔بڑھی ہوئی مونچھیں ،بغلیں اور زیر ناف بال صاف کر لیے جائیں تاکہ احرام کے دنوں میں اس صفائی کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ اگر احرام باندھنے سے پہلے ایسی مخصوص صفائی کی ضرورت نہ ہو تو اسے رہنے دیا جائے کیونکہ یہ چیز احرام کا حصہ نہیں بلکہ یہ کام ایک ضرورت کی وجہ سے ہے۔ خوشبو کا استعمال احرام باندھنے سے پہلے جو خوشبو میسر ہو اسے استعمال کیا جائے، مثلاً: کستوری ،پرفیوم عرق گلاب یا کسی خوشبو دار لکڑی کی دھونی وغیرہ ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: "كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِحْرَامِهِ حِينَ يُحْرِمُ، وَلِحِلِّهِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ" "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام باندھنے سے قبل میں خوشبو لگاتی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کھول دیتے تو بیت اللہ کا طواف (طواف زیارت) کرنے سے پہلے بھی آپ کو خوشبو لگاتی۔"[2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" اگر محرم احرام باندھنے سے پہلے اپنے بدن پر خوشبو لگانا چاہے تو اچھا اور بہتر ہے لیکن اسے کسی کو حکم نہیں دینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسا کیا تھا لیکن لوگوں کو اس کا حکم نہیں دیا
[1] ۔ مجموع الفتاوی لا بن تیمیہ 26/108۔ [2] ۔ صحیح البخاری الحج باب الطیب عند الاحرام حدیث 1539۔