کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 342
دے۔جن حقوق کو ادا نہیں کر سکا ان کی ادائیگی کے لیے کسی کو اپنا نائب مقرر کردے ،اپنے اہل و عیال اور جن کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے واپس آنے تک کے جملہ اخراجات کا بندوبست کر کے بے فکر کرے۔ پوری کوشش کرے کہ یہ خرچ حلال کی کمائی سے ہو اور سفر کے لیے زادراہ لے جو اسے کافی ہوتاکہ کسی کے آگے دست سوال نہ بڑھائے۔ زادراہ حلال اور پاک ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ" "اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو۔"[1] سفر میں کوئی ایسا شریک سفر تلاش کرے جو نیک ہو سفر اور مناسک حج کی ادائیگی میں معاون ہو اور راہنما ہو۔کہیں بھول چوک ہو جائے تو اصلاح کردے۔ نیت کا درست اور صحیح ہونا ضروری ہے۔ ایک مسلمان حج کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا حصول سمجھے، وہ نرمی اور حسن اخلاق کو اپنا ئے ۔جھگڑا کرنے لوگوں کو راستوں میں تنگ کرنے سے اجتناب کرے ،اپنی زبان کو گالی غیبت اور تمام ان امور سے محفوظ رکھے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ناپسندیدہ ہیں۔ مواقیت حج کا بیان "مواقیت"میقات کی جمع ہے۔ میقات کا لغوی معنی"حد"ہے جب کہ شریعت کی اصطلاح میں"عبادت کی جگہ یا اس کا وقت"ہے۔ مواقیت حج کی دو قسمیں ہیں:(1)زمانیہ، یعنی جن کا تعلق زمانے اور وقت سے ہے اور(2)مکانیہ: یعنی جن کا تعلق مکان اور جگہ سے ہے۔ مواقیت زمانیہ کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں موجود ہے: "الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ " "حج کے مہینے معلوم و مقرر ہیں، چنانچہ جو شخص ان میں حج لازم کر لے تو وہ شہوانی باتوں ،گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑا کرنے سے بچتا رہے۔"[2] اور حج کے مہینے یہ ہیں: شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے ابتدائی دس ایام جو شخص ان مہینوں میں حج کے لیے حرام
[1] ۔البقرۃ:2/287۔ [2] ۔البقرۃ:2/197۔