کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 334
"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے کلمہ شہادت کہنا نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا۔"[1]اور بیت اللہ کا حج کرنا بشرطیکہ وہاں جانے کی طاقت ہو۔"[2] واضح رہے کہ بیت اللہ تک جانے کی طاقت سے مراد بیت اللہ تک پہنچنے اور واپس اپنے گھر آنے تک خرچ اور سواری کے بندوبست کا ہونا ہے۔ حج کی مشروعیت میں حکمت اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کی ہے: "لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ (28) ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ" "تاکہ وہ اپنے منافع کے لیے حاضر ہوں اور معلوم ایام میں(ذبح کرتے وقت ) ان چوپائے مویشیوں پر اللہ کا نام پڑھیں جو اللہ نے انھیں دیے ہیں، پھر تم (خود بھی) ان کا گوشت کھاؤ اور کھلاؤ ہر بھوکے فقیر کو۔ پھر چاہیے کہ وہ اپنا میل کچیل دور کر یں اور چاہیے کہ اپنی نذریں پوری کریں اور چاہیے کہ قدیم گھر (بیت اللہ) کا طواف کریں۔"[3] یادرہے کہ اس آیت میں جن منافع کا ذکر ہے وہ بندوں کو حاصل ہوتے ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ان چیزوں سے مستغنی ہے۔ حج کی فرضیت کو نماز زکاۃ اور روزے سے مؤخر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ نماز دین کا ستون ہے اور وہ ایک دن میں پانچ مرتبہ ادا کی جاتی ہے، پھر نماز کے بعد زکاۃ کی فرضیت ہے کیونکہ متعدد مقامات پر نماز اور زکاۃ کو ملا کر بیان کیا گیا ہے، پھر روزہ ہے جو ہر سال ہی آجاتا ہے لیکن حج زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے اور وہ بھی تب جب طاقت ہو۔ جمہور علماء کے قول کے مطابق دین اسلام میں حج نو ہجری کو فرض ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن دس ہجری میں ایک ہی حج (حجۃ الوداع ) کیا تھا جبکہ عمر ے چار کیے تھے۔ حج اور عمرہ کرنے کا مقصد ان مقامات میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے جہاں اس کی عبادت کرنے کا حکم خاص
[1] ۔صحیح البخاری الایمان، باب دعاؤ کم ایمانکم ،حدیث 8۔وصحیح مسلم الایمان باب بیان ارکان الاسلام ودعائمہ العظام ،حدیث 16۔ [2] ۔صحیح مسلم، الایمان، باب السوال عن ارکان الاسلام، حدیث 12۔وسنن النسائی الصیام باب وجوب الصیام، حدیث 2093۔ [3] ۔الحج 22۔28۔29۔