کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 327
"میرے ذمے رمضان کے روزوں کی قضا ہوتی تو میں شعبان سے پہلے قضا نہیں دے سکتی تھی۔"[1] صحیح مسلم کی روایت میں راوی کے وضاحتی الفاظ یہ ہیں: "وَذَلِكَ لِمَكَانِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" "اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہوتا تھا۔"[2] اس روایت سے ثابت ہوا کہ روزے کی قضا میں وقت کی خاصی وسعت ہے۔ آئندہ رمضان شروع ہونے سے پہلے پہلے قضا دی جا سکتی ہے۔ اگر قضا میں اس قدر تاخیر ہو گئی کہ اگلا ماہ رمضان بھی شروع ہو گیا تو وہ شخص موجودہ رمضان کے روزے رکھے جبکہ گزشتہ رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے بعد میں رکھے۔ اگر یہ تاخیر کسی شرعی عذر کی وجہ سے ہوئی ہے تو صرف روزوں کی قضا دے اور اگر کوئی شرعی عذر نہ تھا تو وہ قضا بھی دے اور بطور کفارہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔[3] اگر کسی شخص کے ذمے رمضان کے روزوں کی قضا تھی لیکن اگلا رمضان آنے سے پہلے ہی وہ فوت ہو گیا تو اس کے ذمے کچھ نہیں کیونکہ جس وقت وہ فوت ہوا اس وقت قضا میں تاخیر جائز تھی۔ اگر وہ رمضان جدید کے بعد فوت ہو گیا تو اگر قضا کی تاخیر کا سبب کوئی شرعی عذر (مرض یا سفر ) تھا تو اس کے ذمے بھی کوئی روزہ نہیں۔ اور اگر بغیر عذر کے رمضان جدید آگیا تو اس کے ترکہ سے ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کا کھانا بطور کفارہ لازم ہے۔ اگر کوئی شخص مر گیا اور اس کے ذمے کسی کفارے کے روزے تھے، مثلا: ظہار کے کفارہ کے واجب روزے تھے یا حج تمتع میں قربانی نہ کرنے کی وجہ سے روزے واجب تھے تو میت کی طرف سے روزے نہ رکھے جائیں بلکہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا جائے جو اس کے ترکہ سے اداہو کیونکہ یہ ایسے روزے تھے جن کی زندگی میں نیابت نہیں ہو سکتی تھی، لہٰذا موت کے بعد بھی نیابت درست نہیں۔ یہ قول اکثر اہل علم کا ہے۔ اگر کوئی شخص فوت ہوگیا اور اس کے ذمہ نذر کے روزے تھے تو مستحب یہ ہے کہ اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے کیونکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں روایت ہے: "جاءت امرأة إلى رسول اللّٰهِ صلى اللّٰهُ عليه وسلم فقالت : يا رسول اللّٰه إن أمي ماتت وعليها صوم نذر ، أفأصوم عنها ؟ قال : أرأيت لو كان على أمك دين فقضيتيه ، أكان
[1] ۔صحیح البخاری الصوم باب متی یقضی قضا ء رمضان حدیث 1950وصحیح مسلم الصیام باب جواز تاخیر قضاء رمضان مالم یجی رمضان آخر حدیث 1146۔ [2] ۔صحیح مسلم الصیام باب جواز تاخیر قضاء رمضان حدیث1146۔ [3] ۔المغنی والشرح الکبیر 4/85۔86۔یہ مسئلہ بلا دلیل ہے، قضا لازم ہے ،مزید بطور کفارہ مساکین کو کھانا دینا لازم نہیں، دیکھیے : اللباب: 294(ع۔و)