کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 318
زیادہ نہیں ہوتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "إِنَّمَا الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ ، فَلا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ ، وَلا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدِرُوا لَهُ " "مہینہ انتیس دنوں کا ہوتا ہے جب چاند دیکھو تب روزے رکھو اور چاند دیکھ کر روزے چھوڑدو۔اگر بادل وغیرہ ہوتو شعبان کے تیس دن پورے کر لو۔"[1] سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔[2] روزہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو مسلمان ،عاقل بالغ ہواور اس کی طاقت رکھتا ہو۔ کافر شخص پر روزہ نہ فرض ہے اور نہ اس کی طرف سے درست ۔ اگر وہ دوران رمضان میں توبہ کر کے مسلمان ہو جائے تو باقی ایام کے روزے رکھے اور حالت کفر کے گزشتہ ایام کی قضا اس پرلازم نہیں۔ چھوٹے بچے پر روزہ فرض نہیں۔ اگر سمجھ دار چھوٹا بچہ روزہ رکھے گا تو اس کے حق میں وہ روزہ نفلی ہو گا۔ پاگل اور دیوانے شخص پر روزہ فرض نہیں ۔اگر وہ دیوانگی کی حالت میں روزہ رکھے گا تو درست نہ ہو گا کیونکہ اس میں نیت شامل نہیں ہوئی جو ضروری تھی۔ عاجز، مریض اور مسافر پر عجز و سفر کی حالت میں روزہ رکھنا فرض نہیں۔ جب مرض اور سفر کی حالت ختم ہو جائے تو دونوں شخص چھوٹ جانے والے روزوں کی قضا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ " "تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے۔"[3] روزہ رکھنے کا حکم الٰہی مقیم ،مسافر ،تندرست ،مریض اور پاکیزہ ،حائضہ، نفاس والی عورت ،بے ہوش شخص سب کو شامل ہے۔ ان سب پر فرض ہے کہ عذر ختم ہونے پر چھوٹ جانے والے روزے رکھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا خطاب ان لوگوں کو بھی شامل ہے اور خطاب اسی لیے ہے تاکہ وہ اس کی فرضیت کا عقیدہ رکھیں اور اس کی قضا یا ادا کرنے کا عزم بالجزم رکھیں ۔ اوربعض لوگوں کو اس ماہ رمضان میں روزوں کو ادا کرنے کا حکم ہے اور وہ ایسے لوگ ہیں جو تندرست اور مقیم ہیں۔اور بعض لوگوں کو قضا کا حکم ہے اور وہ حائضہ اور نفاس والی عورت یا وہ مریض شخص ہے جو روزے کو ادا کرنے پر قادر نہیں، البتہ قضا پر قادر ہے۔ بعض لوگوں کو ماہ رمضان میں روزہ رکھنے یا نہ رکھنے (دونوں)
[1] ۔صحیح مسلم الصیام باب وجوب صوم رمضان لرویۃ الہلال، حدیث1080۔ [2] ۔صحیح مسلم الصیام باب وجوب صوم رمضان لرویۃ الہلال ،حدیث1081۔ [3] ۔البقرۃ:2/184۔