کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 316
واضح رہے کہ آیت مذکورہ میں (كُتِبَ) کے معنی ہیں"فرض کیا گیا ۔"اور اللہ تعالیٰ کے فرمان(فَلْيَصُمْهُ)میں روزہ رکھنے کا حکم آیا ہے جو فرض ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں ماہ رمضان المبارک کا روزہ رکھنا بھی ذکر فرمایا ہے۔[1] الغرض رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت اور فضیلت میں بہت سی مشہور اور صحیح احادیث وارد ہیں۔ علاوہ ازیں تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں اور ان کا منکر کافر ہے۔ روزے کی مشروعیت میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے نفس انسانی کو ردی خیالات اور ر ذیل اخلاق سے پاک کیا جائے اور اس کا تزکیہ اور تطہیر ہو۔ یہ ایک ایسا مقصد ہے جس کے حصول سے انسانی بدن کے وہ رخنے تنگ ہو جاتے ہیں جن کے ذریعے سے شیطان انسان کے جسم میں سرایت کرتا ہے کیونکہ "إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّم" "شیطان خون کی طرح انسان کے رگ وپے میں چلتا ہے۔"[2] جب کوئی شخص خوب کھاپی لیتا ہے تو اس کا نفس خواہشات کی پیروی میں آگے بڑھنا چاہتا ہے جس سے انسان کی قوت ارادی کمزور پڑجاتی ہے، عبادات میں رغبت کم ہو جاتی ہے جبکہ روزہ اس کے برعکس کیفیت پیدا کرتا ہے۔ روزہ دنیا کے حصول کی تمنا اور اس کی فاسد خواہشات کو کم کرتا ہے، آخرت کی طرف رغبت پیدا کرتا ہے،مساکین کے ساتھ ہمدردی اور ان کے دکھ درد کا احساس دلاتا ہے کیونکہ روزے دار روزے کی حالت میں بھوک اور پیاس کی تکالیف کا ذائقہ خود چکھتا ہے۔ یاد رہے عربی زبان میں روزے کوصوم کہتے ہیں جس کے شرعی معنی ہیں "نیت کر کے کھانے ،پینے اور جماع وغیرہ سے رکنا۔" نیز بے حیائی اور نافرمانی کی باتوں اور کاموں سے رکنا اس میں شامل ہے۔ روزے کا وقت صبح صادق کے طلوع ہونے سے شروع ہوتا ہے اور غروب آفتاب کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[1] ۔صحیح البخاری ،الایمان باب دعاؤ کم ایمانکم ،حدیث 8 وصحیح مسلم، الایمان ،باب ارکان الاسلام ودعائمہ العظام ،حدیث :16۔ [2] صحیح البخاری الاعتکاف، باب ھل یدرأ المعتکف عن نفسہ ؟ حدیث 2039۔