کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 307
سوال کرنے کی بھی اجازت دی ہے،چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا قبیصہ رضی اللہ عنہ سے ،جب اس نے اپنی اس طرح کی ذمہ داری میں مقروض ہونے کا ذکر کیا،کہا: "أَقِمْ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا" "آپ یہیں(مدینہ میں) قیام کریں،ہمارے پاس صدقہ وزکاۃ کامال آئے گا تو ہم آپ کو دلوادیں گے۔"[1] 2۔غارم لنفسہ:ایک شخص اپنے آپ کا فدیہ دے کر کفار کی ماتحتی سے نکلنا چاہے یا کسی شخص پر اس قدر قرضہ ہے جسے وہ ادا نہ کرسکتا ہو تو ایسے لوگوں کی زکاۃکے مال سے مدد کی جائے تاکہ وہ اپنی مشکل سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔ 7۔ فی سبیل اللہ:جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد وقتال میں مصروف ہیں اور ان کو بیت المال سے کوئی تنخواہ وغیرہ نہیں ملتی،ایسے لوگوں کی بھی مال ِزکاۃ سے مدد کی جائے۔واضح رہے قرآن مجید میں جہاں کلمہ "فی سبیل اللہ" مطلق طور پر استعمال ہوا ہےتو اس سے مراد جہاد وقتال ہی ہے،[2]چنانچہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: "إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ" "بے شک اللہ(تعالیٰ) ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہادکرتے ہیں۔"[3] نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ" "اور تم لڑو اللہ کی راہ میں۔"[4] 8۔ مسافر:ایسا مسافر جس کامال وخرچ دوران سفرختم ہوجائے یا کسی وجہ سے ضائع یاگم ہوجائے۔یہ مسافر اس قدر مال ِ زکاۃ لے سکتاہے جس سے وہ اپنی منزل تک اور پھر واپس گھر تک پہنچ جائے۔مسافر کےحکم میں مہمان بھی داخل ہے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے ہے۔ اگر مسافر،مجاہد،مقروض یامکاتب نے اپنی ضروریات کی خاطر مال زکاۃ لیا لیکن ضرورت پوری ہوجانے کے بعد کچھ مال بچ گیا تو ان پر لازم ہے کہ اسے اپنے پاس نہ رکھیں کیونکہ انھوں نے جو کچھ لیاتھا،اس کے مطلقاً مالک نہیں ہوسکتے تھے،وہ تو کسی سبب کی وجہ سے بقدر ضرورت مال کےمالک ہوئے ،لہذا جب وہ سبب ختم ہوگیاتو استحقاق بھی نہ رہا۔
[1] ۔صحیح مسلم،الزکاۃ باب من تحل لہ المسالۃ ،حدیث 1044۔ [2] ۔تفصیل کے لیے دیکھئے: ابحاث ھیئۃ کبار العلماء 1/61 ومسند احمد 3/56۔ [3] ۔الصف 61/4۔ [4] ۔البقرۃ:2/190۔