کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 306
طرف سے مل رہاہے۔ 4۔ تالیف قلوب:اس مصرف سے متعلق دو قسم کے لوگ ہیں: 1۔وہ کافرشخص جو اسلام کی طرف راغب ہو اور اس کے اسلام قبول کرنے کی امید وتوقع ہو۔ایسےشخص کو زکاۃ دے دی جائے تاکہ اسلام کی طرف اس کامیلان زیادہ ہوجائے یا وہ کافر جس کو مال دینے سے اس کے شر سے یا اس کی وجہ سے دوسروں کی شرارتوں اورفتنوں سے مسلمان محفوظ ہوتے ہوں۔ 2۔کسی نو مسلم کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے اسے زکاۃ دینا درست ہے۔اسی طرح اگر اسے زکاۃ دینے سے اس جیسے دوسرے غیر مسلم کو اسلام کی رغبت پیدا ہونے کی امید ہوتو بھی اس نو مسلم کو زکاۃ دے دی جائے۔ اسی طرح جن اغراض ومقاصد میں اسلام اور اہل اسلام کو فائدہ ہووہ سب اس مصرف میں شامل اور داخل ہیں ۔واضح رہے اس مصرف میں صدقات وزکاۃ کامال تب صرف کیاجائے جب اس کی شدید ضرورت ہوورنہ اس سے صرف نظر کیا جائے جیسا کہ حضرت عمر ،عثمان ،اورعلی رضی اللہ عنہم نے تالیف قلوب کا مصرف ختم کردیا تھا کیونکہ اس وقت اس کی ضرورت نہ تھی۔ 5۔ غلام اورلونڈیاں آزاد کرنا:اس مصروف میں وہ لوگ شامل ہیں جو غلام مکاتب ہوں،یعنی جنھوں نے آزادی کے لیے اپنے مالکوں سے اپنی قیمت دینے کامعاہدہ کرلیا ہو لیکن ان کے پاس اس قیمت کی ادائیگی کے لیے تھوڑا مال ہو یا بالکل نہ ہو۔ ایسے شخص کو مال ِزکاۃ سے دیا جائے تاکہ وہ آزادی حاصل کرسکے۔ اسی طرح کوئی شخص مال زکاۃ میں سے کسی غلام کو اس کے مالک سے خرید کرآزاد کرسکتا ہے۔علاوہ ازیں کسی قیدی کے ذمے کوئی فدیہ یادیت ہوتو وہ ادا کرکے اسے رہائی دلاسکتاہے۔یہ بھی گردن کو(قید سے) چھڑانا ہی ہے۔ 6۔ غارم:غارم سے مراد مقروض ہے ،اس کی دو قسمیں ہیں: 1۔غارم لغیرہ:اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے دیکھا کہ دو شخصوں یا دو قبیلوں یادو بستیوں کے درمیان خون یا مال کے معاملے میں شدید نزاع پیدا ہوچکا ہے جو آگے چل کر سخت عداوت ودشمنی بلکہ لڑائی کاسبب بن سکتاہے۔اس شخص نے فریقین میں فتنے کو مٹانے اورمصالحت پیدا کرنے کی خاطر مداخلت کی جو عظیم نیکی کا کام ہے،اس کام میں اس نے مال کی ادائیگی کی ذمے داری قبول کرلی۔ایسے شخص کی مال ِ زکاۃ سے مدد کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ وہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآہوسکے۔اس میں اس کی حوصلہ افزائی بھی ہے اور ایسے عظیم کام کرنے کی دوسروں کو ترغیب بھی ہے تاکہ فتنے اور فساد کاسدباب ہو۔شارع علیہ السلام نے تو ایسے شخص کے لیے ایسی عظیم غرض کی خاطر کسی سے