کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 300
مقدار صدقۂ فطر ادا کریں گے،مثلاً:دودھ گوشت یامچھلی وغیرہ۔یہ جمہور علماء کا قول ہے جو درست ہے کیونکہ صدقۂ فطر کا مقصد عید کے روزمساکین کی خوراک کی ضرورت کو پورا کرنا ہے اور اس سے ان کی ہمدردی ہے،یہ مقصد اہل علاقہ کی خوراک میں مستعمل اشیاء کی ادائیگی ہی سے کماحقہ حاصل ہوسکتاہے۔بنا بریں صدقۂ فطرمیں آٹادینا بھی درست ہے اگرچہ اس بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں۔پکی ہوئی روٹی یاتیار کھانا دینے میں اگرچہ مساکین کے لیے زیادہ فائدہ ہے اور اس میں ان کے لیے محنت ومشقت بھی ختم ہوجاتی ہے لیکن غلہ اور اناج بہتر ہے کیونکہ وہ ذخیرہ بھی ہوسکتا ہے۔"[1] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اگرچہ حدیث شریف میں مقرر(پانچ) اجناس کا بیان ہے لیکن مناسب یہ ہے کہ صدقۂ فطر میں وہ جنس ادا کی جائے جو اس علاقے کے لوگوں کی عام خوراک ہو،مثلاً:چاول وغیرہ۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ایک قول یہی ہے بلکہ یہ اکثر علماء کا قول ہے جو صحیح ہے کیونکہ صدقات کے وجوب کااصل مقصد فقراء مساکین کی ہمدردی ہے۔"[2] (11)۔صدقۂ فطر میں غلہ اور اجناس کے بدل میں اس کی نقد قیمت(روپے) دینا خلاف سنت ہے،لہذا کافی نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسا منقول نہیں کہ وہ صدقۂ فطر میں اجناس کی قیمت دیتے ہوں،چنانچہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"صدقۂ فطر میں نقد قیمت نہ دی جائے۔کسی نے کہا:کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نقد قیمت دینے لینے کے قائل تھے۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے:یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو چھوڑ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں نے یوں کہا؟حالانکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (گندم،جو۔۔۔کاایک صاع صدقۂ فطر) فرض قراردیاہے۔"[3] (12)۔صدقۂ فطر مقررہ وقت میں مستحقین کے پاس خود یا کسی بااعتماد نائب کے ذریعے سے پہنچا دینا چاہیے۔اگرکسی خاص مسکین کوصدقۂ فطر دینے کے لیے جا نہ سکایا اسے اس تک پہنچانے والاکوئی شخص بھی نہ ملاتو وہ کسی اور مسکین یا فقیر کو دے دے۔ ملاحظہ: بعض لوگ اس موقع پر ایک غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں ،وہ اس طرح کہ صدقۂ فطر ایسے شخص کے سپردکر دیتے ہیں جو مستحق شخص کی طرف سے نائب وذمہ دار نہیں ہوتا۔صدقۂ فطر ایسے شخص کے حوالے کرنا درست نہیں ،چنانچہ اس مسئلے پر توجہ دلانا نہایت ضروری ہے۔
[1] ۔اعلام الموقعین 3/15۔ [2] ۔مجموع الفتاویٰ 13/43۔بتصرف یسیر۔ [3] ۔المغنی والشرح الکبیر 2/671۔یہ ایک موقف ہے جبکہ دوسرا موقف یہ بھی ہے کہ صدقۃ الفطر میں قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔(ع۔و)