کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 295
مال میں سے زکاۃ ادا کریں۔[1] علاوہ ازیں جنگل میں چرنےوالے جانوروں کی طرح مال تجارت بڑھنے والا مال ہے۔بنا بریں مال تجارت میں زکاۃ فرض ہے بشرطیکہ اس پر ایک سال گزر گیا ہو۔متعدد علمائے کرام نے اس پر اہل علم کااجماع نقل کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ائمہ اربعہ اوردیگر علمائے امت کا(ماسواچند افراد کے) اس امر پر اجماع ہے کہ اموال تجارت میں زکاۃ فرض ہے،تاجر مقیم ہویامسافر کسی نے مال تجارت رکھ چھوڑا ہو اور وہ اس کی قیمت کے بڑھنے کا منتظر ہویا کوئی دوکاندار ہو،نیز وہ مال تجارت نیا کپڑا ہویامستعمل لباس وغیرہ۔کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا پھل پھول ،اچار مربے وغیرہ ہوں یا کوئی اور چیز مٹی کے برتن(خواہ چینی مٹی کے ہوں یاعام) ہوں یا غلام ،گھوڑے،خچر،گدھے اور بھیڑ بکریاں ہوں،خواہ انھیں گھر میں چار الا کر ڈالاجائے یاوہ خود چرچگ لیتی ہوں تمام پر زکاۃ ہے کیونکہ ہر علاقے کے لوگوں کاباطنی مال زیادہ ترسامان تجارت پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ان کا ظاہری مال زیادہ تر مویشیوں کی صورت میں ہوتا ہے۔"[2] (1)۔سامان تجارت میں زکاۃ کی فرضیت کی چند شرائط یہ ہیں: 1۔ وہ اپنے کسی عمل کے نتیجے میں اس کا مالک بنا ہو،مثلاً:خریدوفروخت ،قبول ہبہ،وصیت،حصول اجرت یاکسی اور کمائی کے طریقے سے مالک بنا ہو۔ 2۔ تجارت کی نیت سے کسی سامان کامالک ہو،یعنی اس مال کے ذریعے سے مزید مال کمانے کی نیت رکھتا ہو کیونکہ اعمال کادارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور تجارت عمل ہے،لہذا دیگر اعمال کی طرح اس میں بھی نیت کو شامل کرنا ضروری ہے۔ 3۔ اس مال کی قیمت سونے یاچاندی کے نصاب کو پہنچ جائے۔ 4۔ اس مال پر ایک سال گزرگیا ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: " ولَيْسَ فِي مَالٍ زَكَاةٌ ، حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ" "کسی مال میں زکاۃ تب ہے جب اس پر ایک سال گزرگیا ہو۔"[3] اگر کسی نے زکاۃ کے نقدی نصاب کے عوض کوئی اور سامان تجارت خرید لیا یا ایسے سامان کے بدلے میں اور سامان خریدا جوزکاۃ کے نصاب تک پہنچ چکا تھا تو مدت سال کی ابتدا اسی مال سے شمار ہوگی جس کے عوض نیا سامان تجارت خریدا گیا ہے۔
[1] ۔سنن ابی داود ،الزکاۃ، باب العروض اذا کانت للتجارۃ ھل فیھازکاۃ؟ حدیث 1562۔ [2] ۔مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ 25/45۔ [3] ۔سنن ابی داود الزکاۃ باب فی زکاۃالسائمۃ، حدیث 1573۔