کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 291
(1)۔سونے،چاندی میں زکاۃ کی فرضیت کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ" ’’اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ،انھیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجیے۔‘‘[1] اس آیت مبارکہ میں اس شخص کے لیے سخت عذاب کی وعیدہے جوسونا اور چاندی رکھتے ہوئے ان سے زکاۃ نہیں نکالتا۔صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں روایت ہے: " مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحَ مِنْ نَارٍ" "ہر وہ شخص جو سونے چاندی کا مالک ہے اور ان کا حق(زکاۃ) ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کے لیے اسی سونے چاندی سے آگ کے تختے بنادیے جائیں گے۔"[2] ائمہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت مذکورہ میں کلمہ"کنز"سے مراد وہ مال ہے جو زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جائے لیکن اس میں زکاۃ ادا نہ کی جائے۔اگراس میں سے زکاۃ اداکردی جائے تو وہ"کنز" نہیں ہے۔اور "کنز"کےلغوی معنی ہیں ہر وہ شے جس کوجمع کیا گیا ہو،خواہ زمین کے اندر جمع ہویاباہر۔ (2)۔جب سونا کم ازکم بیس مثقال(ساڑھے سات تولے) ہو اور چاندی دو سو اسلامی درہم(ساڑھے باون تولے) ہوتوان میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے۔یہ سونا،چاندی سکے کی صورت میں ہویا اس کےعلاوہ کسی اور شکل میں ہو۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: " ان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم كَانَ يَأْخُذُ مِنْ كُلِّ عِشْرِينَ دِينَارًا فَصَاعِدًا نِصْفَ دِينَارٍ " ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہربیس یا بیس سے زائددینار میں سے نصف دینار زکاۃ لیاکرتے تھے۔‘‘ [3] سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"وَفِي الرِّقَّةِ رُبْعُ الْعُشْرِ" "خالص چاندی میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے۔"[4] سعودی عرب کی کرنسی جُنیہ (گنی) کے مطابق سونے کا نصاب 11.143 گنی ہے جبکہ سعودی عرب کی کرنسی ریال
[1] ۔التوبۃ 9/34۔ [2] ۔صحیح مسلم ،الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ ،حدیث 987۔ [3] ۔سنن ابن ماجہ، الزکاۃ، باب زکاۃ الورق والذھب، حدیث 1791۔ [4] ۔صحیح البخاری، الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم ،حدیث 1454۔