کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 285
مال ہو،مثلاً:ایک شخص کا نصف یا چوتھائی حصہ ریوڑ یامال ہو۔ 2۔ اشتراک اوصاف،یعنی ہرایک کامال واضح اور معروف ہو،البتہ دونوں اپنا اپنا مال ملا کر ایک جگہ رکھتے ہوں۔ شراکت کی ان دونوں صورتوں میں دونوں شخص زکاۃ کے فرض ہونے یا اس کے ساقط ہونے میں شریک ہوں گے۔اسی طرح زکاۃ کی کمی بیشی میں متاثر ہوں گے،نیز ان صورتوں میں دونوں کا مال ایک مال متصور ہوگا۔اس کے لیے درج ذیل شرائط ہیں: (5)۔مجموعی مال نصاب زکاۃ تک پہنچ چکا ہو۔اگر مقرر نصاب سے کم مال ہوتو اس میں زکاۃ نہیں۔واضح رہے یہاں مجموعی نصاب مراد ہے اگرچہ ہرایک کامال نصاب زکاۃ سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ (6)۔مشترکہ کاروبار میں دونوں وجوب زکاۃ کے اہل ہوں۔اگر ایک کافر ہوتو اشتراک مؤثر نہ ہوگا صرف مسلمان کامال نصاب زکاۃ تک ہوگا تو اس کے مال پر زکاۃ ہے ،ورنہ نہیں۔ (7)۔دونوں کے جانور اکٹھے رہتے،چرتے اور ایک جگہ رات گزارتے ہوں۔ان کا دودھ ایک جگہ دوہا جاتا ہو۔اگر ہر ایک الگ الگ جگہ پر اپنے جانوروں کا دودھ دوہتا ہے تو یہ اشتراک متصور نہ ہوگا۔مشترک ریوڑ کاسانڈ بھی مشترک ہو۔سب جانور ایک ہی جگہ چرتے ہوں۔اگر ہر ایک الگ الگ جگہ پر اپنے جانوروں کو چراتا ہوتو اشتراک مؤثر نہ ہوگا الگ الگ ملکیت شمار ہوگی۔ جب یہ تمام شرائط جمع ہوجائیں تو اشتراک کرنے والے دونوں شخصوں کامال ایک مال شمار ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "ولا يجمع بين متفرق، ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة، وقال : وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية" "زکاۃ دینے کے خوف سے متفرق مال کو اکھٹا نہ کیا جائے اور جو اکھٹا ہو اسے متفرق(الگ الگ) نہ کیا جائے۔۔۔جو زکاۃ دو شریکوں سے وصول کی جائے گی،پھر وہ دونوں ایک دوسرے سے برابری کی سطح پر وصولی کریں گے۔"[1] (8)۔اگر ایک شخص کی ایک بکری ہو اور دوسرے کی انتالیس بکریاں ہوں یا چالیس اشخاص کی مشترکہ چالیس بکریاں ہوں۔دونوں سارا سال اکٹھے رہے ہوں۔اشتراک کی مذکورہ شرائط بھی موجود ہوں تو دونوں صورتوں میں مجموعی طور
[1] ۔صحیح البخاری، الزکاۃ ،باب لا یجمع بین مفترق ولا یفرق بین مجتمع وباب ما کان من خلیطین۔۔۔،حدیث 1450۔1451۔