کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 284
اور اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ" "ان میں سے بری چیز کے خرچ کرنے کاقصد نہ کرنا۔"[1] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: "وَلَكِنْ مِنْ وَسَطِ أَمْوَالِكُمْ فَإِنَّ اللّٰهَ لَمْ يَسْأَلْكُمْ خَيْرَهُ ، وَلَمْ يَأْمُرْكُمْ بِشَرِّهِ " "تم درمیانی قسم کے مال دیاکرو۔اللہ تعالیٰ تم سے نہ زیادہ اچھا مال مانگتاہے اور نہ تمھیں نکما مال دینے کا حکم دیتا ہے۔"[2] الغرض زکاۃ دینے والے سے موٹا تازہ جانور جبراً وصول نہ کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کرتے ہوئے یہ تلقین کی تھی: "إيّاكَ وَكَرَائمَ أمْوَالهم ""لوگوں کا عمدہ مال لینے سے بچنا۔"[3] (2)۔زکاۃ درمیانے درجے کی وصول کی جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:"تم درمیانی قسم کے مال دیاکرو۔"جس کی ساری بکریاں مریض ہوں تو زکاۃ میں مریض ہی قبول کی جائے کیونکہ زکاۃ کا مقصد ایک دوسرے سےغم خواری اورہمدردی ہے۔مریض بکریوں والے سے زکاۃ میں صحیح بکری کا مطالبہ کرنا ظلم ہے،اسی طرح جس کی سب بکریاں چھوٹی ہوں تو انھی سے زکاۃ لی جائے گی۔ (3)۔اگرزکاۃ دینے والا اعلیٰ اور افضل جانور دینا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔اس میں اس کےلیے اجروثواب زیادہ ہے۔ اگر مال میں جانور بڑے اور چھوٹے ،تندرست اور بیمار یانر اور مادہ ہوں تو بڑے اور چھوٹے جانوروں کی الگ الگ قیمت لگاکردونوں قسم کے جانوروں کی قیمت کے برابر ایک بڑی تندرست مادہ زکاۃ میں لے لی جائے۔اسی طرح دوسری قسمیں ،مثلاً:تندرست اور بیمار یا نر اور مادہ کا اندازہ لگا لیا جائے۔اگر تندرست بڑاجانور دو ہزار روپے کا ہو اور بیمار چھوٹا جانور ایک ہزار روپے کاہوتو دونوں قیمتوں کانصف،یعنی پندرہ سوروپے ادا کردے۔ (4)۔اگر مویشیوں میں دویا زیادہ افراد کی شراکت ہوتو اس کی دو صورتیں ہیں: 1۔ اشتراک اعیان،یعنی مال دوآدمیوں میں یوں مشترک ہوکہ ایک دوسرے کے مال کی تمیز وتعین نہ ہو بلکہ اکٹھا
[1] ۔البقرۃ:2/267۔ [2] ۔سنن ابی داود الزکاۃ باب فی زکاۃ السائمۃ حدیث 1582۔ [3] ۔صحیح البخاری الزکاۃ باب اخذ الصدقۃ من الاغنیاء۔حدیث 1496 وصحیح مسلم الایمان باب الدعاء الی الشھادتین وشرائع الاسلام حدیث 19۔