کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 281
گایوں میں زکاۃ نصوص شرعیہ اور اجماع سے ثابت ہے کہ گایوں میں زکاۃ واجب ہے۔سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔آپ نے فرمایا: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ، وَلَا بَقَرٍ، وَلَا غَنَمٍ، لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا، إِلَّا أُقْعِدَ لَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَطَؤُهُ ذَاتُ الظِّلْفِ بِظِلْفِهَا، وَتَنْطَحُهُ ذَاتُ الْقَرْنِ بِقَرْنِهَا، لَيْسَ فِيهَا يَوْمَئِذٍ جَمَّاءُ وَلَا مَكْسُورَةُ الْقَرْنِ" "اونٹوں ،گایوں،اور بھیڑ بکریوں کا جومالک زکاۃ نہیں دیتا،اس کو ایک ہموارمیدان میں لٹایاجائےگا جہاں یہ جانور اپنے مالک کو سینگوں کے ساتھ ماریں گے اوراپنے پاؤں تلے اسے روندیں گے۔اس دن ان میں نہ تو بے سینگ بکری ہوگی اور نہ ٹوٹے ہوئےسینگ والی بکری ہوگی۔"[1] صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: "إِلَّا أُتِيَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا تَكُونُ وَأَسْمَنَهُ تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا" "ان کوقیامت کے دن خوب موٹا تازہ کر کے لایا جائے گا۔وہ اپنے مالک کو اپنے پاؤں تلے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی۔"[2] سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْيَمَنِ أَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنَ الْبَقَرِ مِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ تَبِيعًا، أَوْ تَبِيعَةً، وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً" "جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یمن کی طرف روانہ کیا تو حکم دیا کہ تیس گایوں میں ایک سال کابچہ اور چالیس گایوں میں دو سال کاگائے کابچہ بطور زکاۃ وصول کریں۔"[3] گائیں تیس سے کم ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں کیونکہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ"جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجاتو یہ حکم دیاکہ کسی کے پاس جب تک تیس گائیں نہ ہوں،زکاۃ نہ لینا۔"[4]
[1] ۔صحیح مسلم ،الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ ،حدیث 988۔ [2] ۔صحیح البخاری، الزکاۃ ،باب زکاۃ البقر ،حدیث 1460۔ [3] ۔سنن ابی داود، الزکاۃ، باب فی زکاۃ السائمۃ ،حدیث 1576 وجامع الترمذی، الزکاۃ، باب ما جاء فی زکاۃ البقر ،حدیث 623 ومسند احمد 5/230۔ [4] ۔ھذا معنی الحدیث واصلہ فی مسند احمد 5/240۔