کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد1) - صفحہ 279
قرض خواہ ہرسال زکاۃ ادا کرے گا۔[1] (9)۔استعمال کی عام چیزوں میں زکاۃ نہیں ہے،مثلاً:رہائشی گھر،استعمال میں آنے والے کپڑے،گھر کاسامان،گاڑیاں،مشینری ،سواری کے جانور وغیرہ۔ (10)۔جن اشیاء سے کرایہ حاصل ہوتا ہو ان اشیاء میں زکاۃ نہیں بلکہ ان کی آمدن میں زکاۃ ہے بشرطیکہ کرایہ کی رقم یا اس کےعلاوہ موجود رقم ملاکرزکاۃ کے نصاب تک پہنچ جائے اور ایک سال بیت جائے۔ (11)۔اگر کسی شخص پر زکاۃ فرض ہوگئی لیکن وہ ادائیگی سے پہلے فوت ہوگیا تو اس کی موت کی وجہ سے زکاۃ ساقط نہ ہوگی بلکہ اس کے ورثاء پر لازم ہے کہ اس کے ترکہ سےزکاۃ ادا کریں کیونکہ اس حق کی ادائیگی واجب ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "فدين اللّٰه أحق بالقضاء" "اللہ تعالیٰ کاقرض زیادہ حق رکھتاہے کہ اسےادا کیاجائے۔"[2] مویشیوں میں زکاۃ کا بیان اللہ تعالیٰ نے جن اموال میں زکاۃ فرض کی ہے ان میں سے مویشی ،یعنی اونٹ،گائے اور بھیڑ بکری بھی ہیں بلکہ یہ زکاۃ والے اموال میں سب سے نمایاں ہیں۔ان جانوروں کی زکاۃ کی فرضیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور اور صحیح احادیث وارد ہیں،حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء نے ان اموال کی زکاۃ کی فرضیت اور مسائل کے بارے میں خطوط بھی لکھے تھے اور مدینہ کےگردونواح اور وسیع وعریض مملکت اسلامیہ کے اطراف میں زکاۃ وصول کرنے کے لیے اپنے نمائندے بھی روانہ کیے تھے۔ اونٹ،گائے،بھیڑ اور بکریوں میں زکاۃ فرض ہونے کی دو شرطیں ہیں جو یہ ہیں: 1۔ وہ جانور کام کاج اور کھیتی باڑی کے لیے نہ ہوں بلکہ دودھ اور نسل کے حصول کی خاطر رکھےہوں کیونکہ ان کی عمر اور تعداد بڑھنے کے ساتھ ان کے فوائد میں بھی اضافہ ہوتاجاتا ہے۔ 2۔ وہ جانور جوسارا سال یا سال کااکثر حصہ خودچر کے اپنے لیے خوراک حاصل کریں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
[1] ۔اہل علم کی ایک رائے کے مطابق ایسے شخص کا حکم بھی وہی ہے جو پہلے کا ہے،یعنی جب اسے قرضہ واپس ملے گا تب ایک سال کی زکاۃ دےگا۔(صارم) [2] ۔صحیح البخاری، الصوم، باب من مات وعلیہ صوم، حدیث 1953 وصحیح مسلم ،الصیام، باب قضاء الصوم عن المیت، حدیث 1148 واللفظ لہ۔